اگر بابر اعظم نہیں چلیں گے تو فکر کی کوئی بات نہیں، رضوان ہیں ناں اور اگر رضوان یا فخر زماں ساتھ چھوڑ گئے تو افتخار احمد یا آصف علی کسر پوری کردیں گے اور یہ بھی چلتے بنے تو شاداب خان ان کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔درحقیقت پاکستانی ٹیم ایک ایسی ٹیم کا روپ دھار چکی ہے، جہاں ہر کھلاڑی کچھ کرنے کی تمنا اور عزم رکھتا ہے۔ بیٹنگ ہو یا بالنگ ہر شعبے میں اس ٹیم نے اُن ناقدین کو منہ توڑ جواب دیا ہے جو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف شکست پر لفظی گولہ باری کررہے تھے۔پہلے بنگلہ دیش کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کامیابی اور اب ویسٹ انڈیز کے خلاف۔ قومی ٹیم جیت کی راہ پر گامزن ہے۔ جو بڑا اسکور بناسکتی ہے تو اس کا تعاقب بھی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے، جو کم اسکور پر آؤٹ ہوجائے تو اس کا دفاع بھی کرنا جانتی ہے۔جو شاہین شاہ، وسیم جونیئر، حارث رؤف اور شاداب خان جیسا تگڑا بالنگ اٹیک رکھتی ہے۔
کیایہ کم کامیابی ہے کہ کلینڈر ائیر میں اس ٹیم نے سب سے زیادہ 19میچز جیتے ہیں۔ جبکہ 36بار پوری مخالف ٹیم کو بولڈ آؤٹ کیاہے۔
.@76Shadabkhan provided a GREAT finish to the Pakistan innings.#PAKvWI pic.twitter.com/BqfKM2SFtM
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) December 14, 2021
ویسٹ انڈیز کے خلاف آج جب شاداب خان نے مین آف دی میچ کا اعزاز حاصل کیا تو 2017کے بعد سے وہ یہ ایوارڈ 7ویں بار حاصل کرگئے اور یہ کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کا یہ کارنامہ سرانجام دینے کا نیا ریکارڈ ہے۔
اسی طرح محمد رضوان جس طرح وکٹوں کے پیچھے متحرک اور چاک و چوبند ہوتے ہیں، وہیں بیٹنگ میں بھی ان کے نکھار آگیا ہے۔ جبھی تو ٹی ٹوئنٹی کلینڈر ائیر میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز بن چکے ہیں۔فکر کی بات یہ ہے کہ بابراعظم کی فارم۔ جو دورہ بنگلہ دیش کے بعد سے بیٹنگ میں وہ کچھ نہیں کر پا رہے، جو اس سے قبل کرتے آرہے تھے۔بہرحال قومی ٹیم کو اس سے کوئی فکر نہیں۔ کیونکہ اس کا ہر کھلاڑی بخوبی جانتا ہے کہ اس کی کیا ذمے داری ہے اور ایسا کوئی ٹیم سوچ لے تو سمجھ جائیں اس ٹیم کو ہرانا ممکن ہی نہیں ناممکن ہے۔
Discussion about this post