وفاقی وزرا کی الیکشن کمیشن پر گولہ باری جاری ہے۔ وزرا کو چیف الیکشن کمشنر راجا سکندر کے ’کنڈٹ‘ پر تحفظات ہیں، جبھی انہوں نے الیکشن کمیشن کے ارکان سے دخل اندازی کا مطالبہ کردیا ہے۔ اتوار کو ہونے والی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی ہنگامہ خیز ی سے بھری پریس کانفرنس میں انہوں نے الزام لگایا کہ چیف الیکشن کمشنر راجا سکندر سیاسی ہیں اور اگر وہ سیاست کرنا چاہتے ہیں تو استعفیٰ دے کر سیاسی میدان میں اتریں۔ اس سے پہلے بھی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کچھ ایسا ہی مطالبہ داغ چکے ہیں۔ تازہ پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اور اپوزیشن ایک ہی زبان بول رہے ہیں۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کے درمیان یہ کشیدگی الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو لے کر ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تو یہ بھی ہے کہ چیف الیکشن کمیشن خود الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے خلاف باقاعدہ مہم چلا رہے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت جو انتخابی اصلاحات لانا چاہتی ہے۔اُس کے خلاف چیف الیکشن کمشنر خاص مقصد کے تحت باقاعدہ سرگرم ہیں۔ ان کے مطابق الیکشن کمیشن کے دیگر 2ارکان آگے بڑھ کر، چیف الیکشن کمشنر کے فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔
انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ 2023کے انتخابات اصلاحات کے بعد ہی ہوں گے، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔کچھ ایسا ہی موقف سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر شبلی فراز کا بھی ہے، جن کے مطابق 2023 کے الیکشن الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے تحت ہی ہوں گے، چاہے کسی کو پسند ہوں یا نہ ہو، وفاقی حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہی یہ انتخابات کرائے گی۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی بھی الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات لگا چکے ہیں۔ وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ الیکشن کمیشن نے پیسے لے رکھے ہیں، ایسے ادارے کو آگ لگا دینی چاہیے۔ وفاقی وزرا کے ان تابڑ توڑ حملوں کے بعد الیکشن کمیشن نے دونوں وزرا کو نوٹس بھی جاری کیے اور ان الزامات کے ثبوت بھی مانگ لیے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کی بیشتر جماعتیں چیف الیکشن کمیشن کے موقف کی تائید کرتی ہیں۔
مسلم لیگ نون کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کو چیف الیکشن کمیشن کے خلاف بغاوت پر اکسانا آئین سے غداری کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر کا بیان آئینی اداروں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بھی وفاقی وزرا کے خلاف محاذ کھول رہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر اعظم سواتی نے پہلے الیکشن کمیشن کو آگ لگانے کی دھمکی دی اور اب حکومت کی کوشش ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو کسی طرح متنازعہ بنادیا جائے۔حکومت اگلے انتخابات میں دھاندلی کے لیے الیکشن کمیشن کی ساکھ کو خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نظر یہی آرہا ہے یہ محاذ آرائی کسی بڑے تنازعے کا سبب بن سکتی ہے۔۔ الیکشن کمیشن کے الیکٹرونک ووٹنگ مشین پر کچھ تحفظات ہیں، اب یہ حکومت کا کام ہے کہ انہیں دور کرے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد اس ساری صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کہنا بلا جواز ہے کہ الیکشن کمیشن، اپوزیشن کی زبان بول رہی ہے۔ جتنا وفاقی وزرا، الیکشن کمیشن پر جارحانہ حملہ کررہے ہیں، اتنا ہی الیکشن کمیشن مضبوط اور غیر جانبدار ادارے کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ وزرا کے کہنے پر الیکشن کمیشن کی ساکھ کسی طور بھی مجروح نہیں ہورہی۔ ناہی اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے2ارکان کو چیف الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر اعتراض ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو آئینی اختیارات حاصل ہیں جو وفاقی وزرا کو نہیں ہیں۔ کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن، وفاقی حکومت کی خواہش پر یہ کرسکتا ہے کہ اگلے انتخابات میں چند شہروں میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا استعمال کرکے ایک تجربہ کرکے دیکھ لے یہی ایک بہترین حل ہے، اس ساری کشیدگی کو دور کرنے کا لیکن 2سال کے عرصے میں پورے ملک میں ای وی ایم کے ذریعے ووٹنگ کرانا ناممکن ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں، دونوں فریقین کے درمیان یہ تنازعہ کس رخ بیٹھے گا، اس کا کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن الیکشن کمیشن الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا کچھ شہروں میں تجربہ کرکے دیکھ لینے کا مشورہ اس تناؤ اور کشیدگی میں کچھ کمی کرسکتا ہے۔
Discussion about this post