ٹورنامنٹ کے آغا ز سے پہلے کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک ایسی ٹیم جس کے بارے میں یقین سے کہا جارہا تھاکہ وہ اہم مرحلے میں صرف کمزور ٹیموں کو شکست دے پائے گی، وہ سب سے پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں اپنی نشست پکی کرائے گی، مگر یہ بابر اعظم اور ان کی ٹیم کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے ہر ایک کے اندازے کو غلط ثابت کیا۔ صورتحال یہ ہے کہ کم و بیش 9سال بعد پاکستانی ٹیم اب کسی بھی طرح کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جگہ بنا گئی ہے۔ نمبییا کے خلاف میچ میں اگر تعریف بابر اعظم اور محمد رضوان کی بنتی ہے تو وہیں محمد حفیظ کی بھی جنہوں نے انتہائی برق رفتاری کے ساتھ 16گیندوں پر 32اسکور بورڈ پر سجا دیے۔ عام خیال یہ تھا کہ انہیں میچ میں آرام دیا جائے گا لیکن کپتان نے اُن پر بھروسہ کیا اور یہی نکتہ حفیظ کے لیے آنے والے میچوں میں بہتر سے بہتر کارکردگی کا باعث بھی بنے گا۔
پہلے بیٹنگ کرنے کے فیصلے کو کئی ناقدین کے نزدیک تشویش ناک ہے۔ خاص کر ایسی صورتحال میں جب دوسری اننگ میں ’اُوس‘ فیلڈرز اور بالرز کے لیے مسائل لاتی ہے لیکن بابراعظم الیون نے اسی لیے 189رنز بنائے تاکہ ’اُوس فیکٹر‘ جیت کی راہ میں حائل نہ ہو، ساتھ ساتھ اپنے بالرز کی بھی آزمائش ہوجائے کہ وہ اسکور کا دفاع کس طرح کرتے ہیں۔۔ محمد رضوان نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ جب اُن سے لمبی اننگ کی توقعات کی جائے گی، وہ مایوس نہیں کریں گے۔ وہ ایک کلینڈر ائیر میں سب سے زیادہ نصف سنچری بنانے والے کھلاڑی بھی بن گئے ہیں۔ مین آف دی میچ اس سال ایک سنچری کے ساتھ 9نصف سنچریاں اسکور کرچکے ہیں۔کیا یہ اعزاز بھی کم نہیں ہوگا کہ وہ اس عرصے میں 18اننگز میں 8مرتبہ ناٹ آؤٹ میدان سے گئے ہیں۔
جہاں تک بات کی جائے بابر اعظم کی تو ان کی کلاس یہ دنیا کو باور کرارہی ہے کہ وہ ورلڈ کلاس بلے باز ہیں اور دن بدن ان کی بیٹنگ صلاحیتوں میں نکھار آتا جارہا ہے۔ وہیں اُن کی کپتانی میں بھی پختگی اور اعتماد آتا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نمبییا نے بھی مقابلہ خوب کیا اور یہی بات نیوزی لینڈ اور بالخصوص بھارت کے لیے پریشان کن ہوگی۔ کیونکہ بھارت کے پاس وہ بالنگ اٹیک نہیں جو پاکستان کی خاصیت ہے۔
Discussion about this post