پاکستان کے ہاتھوں ہار، بھارتی ذرائع ابلاغ اور انتہا پسندوں کو کسی صورت ہضم نہیں ہورہی۔ دبئی اسٹیڈیم میں جو کچھ ہوا وہ بھارتی کرکٹ پرستاروں کے لئے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنٹل مین گیم کی طرح اسپورٹس مین اسپرٹ کے رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھلے دل سے شکست تسلیم کی جاتی جیسا کہ بڑے دل والے کپتان ویرات کوہلی نے رضوان کو گلے سے لگا کر بتانے کی کوشش بھی کی لیکن کیا کیجئے اس ہندوتوا نظریے کا کہ جس نے بھارت کے ایک طبقے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ سارا نزلہ اب بھارت کے فاسٹ بولر محمد شامی پر گرایا جارہا ہے جو بدقسمتی سے اس ملک کی ٹیم کے ایک مسلمان کھلاڑی ہیں اور اب سوشل میڈیا پر کرکٹ اسلامو فوبیاکا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ان انتہا پسند بھارتیوں کے نزدیک محمد شامی کا قصور صرف یہ ہے کہ اننگ کا 18 واں اوور انہوں نے کروایا جس میں محمد رضوان نے ایک چھکا اور دو چوکے لگائے اور پھر سنگل لیا، جس کے بعد بابراعظم نے 2 رنز لیے اور یوں مجموعی طور پر اوور میں انہوں نے 17 رنز دئیے۔
محمد شامی نے 3.5اوورز میں 43رنز دیے اور یہی اُن کا قصور بن گیا ۔ انتہا پسند بھارتیوں کا کہنا ہے کہ محمد شامی بھارت کی طرف سے نہیں بلکہ پاکستان کی طرف سے کھیلے اور ہماری جیت ہار کا سبب بنے، اگر وہ صحیح گیند بازی کرتے تو جیت ہماری ہوتی۔ بھارتی سوشل میڈیا صارفین نے اس کارکردگی پر محمد شامی کو سیدھا سیدھا ’غدار‘ کا لقب دے ڈالا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ مختلف ٹیموں کے خلاف کئی میچز میں محمد شامی نے کلیدی کردار ادا کیا اور وہ ٹیم میں شمولیت کے لئے ہر طرح سے میرٹ پر اترتے تھے۔ لیکن اسکے باوجود انتہا پسندوں نے محمد شامی کے خلاف سوشل میڈیا پر جس شدت کے ساتھ نفرت انگیز مہم شروع کر رکھی ہے وہ نہایت شرمناک ہے۔
محمد شامی کو مسلمان ہونے کے ناطے مسلسل نشانے پر رکھا جارہا ہے۔ٹوئیٹر پر ان کے خلاف انتہائی لغو زبان استعمال کی جارہی ہے۔ اور تو اور انہیں ورلڈ کپ کے باقی میچز سے فوری طور پر ڈراپ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آگیا ہے۔ ایک صارف لکھتے ہیں کہ آپ پاکستان چلے جائیں اور اگلی مرتبہ پاکستان کی طرف سے ہی کھیلیں۔ دوسری جانب کچھ بھارتی صارفین ایسے بھی تھے کہ جنھوں نے شامی پر انگلی اٹھانے والوں کو آڑھے ہاتھوں لیا۔
ٹوئیٹر پر ’ اسٹینڈ وِد محمد شامی‘ کا ہیش ٹیگ بھی گردش کرتا رہا جسے بھارت سمیت کئی ملکوں کے روشن خیال کرکٹ مداحوں نے اپنایا۔س سلسلے میں شہرہ آفاق صحافی اور براڈکاسٹر برکھا دت نے باقاعدہ ٹوئٹ کرکے اس ہیش ٹیگ کی مذمت کی ہے۔ اُن کے مطابق محمد شامی پر یہ فرقہ وارانہ اور نسلی تعصب کسی صورت درست نہیں۔
Is the Indian cricket team going to take a gratuitous knee for Black Lives Matter, entirely disconnected from the Indian reality, but stay silent on the bigoted online attacks against Mohd Shami? We expect better @imVkohli .
— barkha dutt (@BDUTT) October 25, 2021
مسلم رہنما اسدالدین اوسی کا کہنا ہے کہ محمد شامی بھارتی ٹیم کے لیے کھیل رہا تھا۔ یہ بھارتیا جنتا پارٹی کا فرض ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو اس بات کے لیے روکے کہ وہ محمد شامی پر غدار ی کا لیبل نہ لگائے۔
Md Shami is being targeted on social media for yesterday’s match, showing radicalization, hatred against Muslims. In cricket, you win or lose. There are 11 players in team but only a Muslim player is targeted. Will BJP govt condemn it?: AIMIM chief Asaduddin Owaisi, in Hyderabad pic.twitter.com/4KUA0FxRmi
— ANI (@ANI) October 25, 2021
ایک اور سابق فاسٹ بالر عرفان پٹھان کا کہنا تھا کہ وہ جب بھارتی ٹیم کا حصہ تھے اور شکست ہوجاتی تو کبھی بھی انہیں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ پاکستان جائیں لیکن اب حالیہ برسوں میں یہ رحجان پروان چڑھ رہا ہے۔
Even I was part of #IndvsPak battles on the field where we have lost but never been told to go to Pakistan! I’m talking about 🇮🇳 of few years back. THIS CRAP NEEDS TO STOP. #Shami
— Irfan Pathan (@IrfanPathan) October 25, 2021
ایک صارف پورٹر واچ نے لکھا کہ شکست کے واحد ذمہ دار شامی نہیں بلکہ ویرات، رشاب اور بمرا سب ہیں۔
اسی طرح پارتھ پنٹر نامی ایک صارف لکھتے ہیں کہ ’یورو 2020 کے بعد جب انگلینڈ کے سیاہ فام کھلاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا تو ہیری کین نے نسل پرست فینز کو کہا تھا کہ انھیں اُن کی ضرورت نہیں۔
آج محمد شامی کو پاکستان سے ہارنے پر گالی دی جا رہی ہے۔ یہ انڈیا کے ہندو کھلاڑیوں کے اپنے مسلم ٹیم میٹ کے لیے کھڑے ہونے کا وقت ہے۔
Discussion about this post