وفاقی حکومت نے ملک بھر میں یکساں قومی نصاب ” ایک قوم ایک نصاب ” جاری کردیا ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یکساں قومی نصاب تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی فریقین کو شامل کرنے کے بعد وضع کیا گیا ہے ۔ جس میں بڑے مکاتب فکر ے علما اور ماہرین تعلیم ، اقلیتی برادری کے نمائندے ، دینی مدارس کے سرپرست ، نجی اور سرکاری اسکول کے ذمے دار اور ماہرین نصاب کی رائے کو شامل کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 5 مذاہب کے لیے ” مذہبی تعلیم ” کے مضمون بھی نصاب میں شامل کیا گیا ہے، جو بین المذاہب، ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کی جانب مثالی قدم ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے کیا کہا ؟
اسلام آباد میں بروز ہیر 16 اگست کو یکساں تعلیمی نصاب کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پچیس برس سے یہ کوشش تھی کہ پاکستان میں ایک دن ایک ہی نصاب پڑھایا جائے ۔ عموماً یہ مشکل لگتا تھا ۔ کیونکہ فیصلہ سازوں کے بچے خود انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتے تھے اور ان کے لیے ہی ساری نوکریاں مخصوص تھیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ یہ مشکل فیصلہ ہے ، اعتراضات بھی ہوں گے ، کہا جائے گا کہ ہمارا تعلیمی نظام تباہ ہورہا ہے لیکن وفاقی حکومت پرعزم ہے ۔ ان کے مطابق 8 ویں سے میٹرک تک کے لیے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھائی جائے گی، جس کیلئے سال 2023 کا ٹائم فریم بنایا گیا ہے۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے درخواست کرتا ہوں کہ اسے 5 یا 6 ماہ میں نافذ کریں، زیادہ دیر نہ کریں ۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کوشش ہے کہ پاکستانی اقلیتوں کو بھی ان کے مذہب کے بارے میں پڑھایا جائے کیونکہ سبھی مذاہب انسانیت کا درس دیتے ہیں۔
انہوں نے ایک بار پھر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ قدم معاشرتی اقدار، ثقافتی و مذہبی احترام، عملی زندگی کے پہلو اور پیشہ ورانہ تعلیم و ہنر بھی نصاب کے اہم پہلو ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے مطابق انہیں یقین ہے کہ اس قدم سے طالبِ علموں میں مثبت تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں خاصی مدد ملے گی ۔
ایک قوم ایک نصاب کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
وفاقی حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ کہنے کو ہم ایک قوم ہیں لیکن سرکاری اسکولز کا اپنا انداز ہے ، مدراس کی اپنی روایت ہے ، اسی طرح نجی اسکولز اپنی مرضی کے نصاب کو پڑھا رہے ہیں ۔ اسی بنا پر ایک قوم ایک نصاب کی ضرورت پیش آئی ،جس کا مقصد قوم کو ناصرف تعلیم یافتہ بلکہ باشعور بنانے کی جانب ایک قدم ہے ۔جس کے ذریعے ایک ہی سوچ کو پروان چڑھانا ہے ۔ اس طرح جہاں والدین کو ہر اسکول کے کے مطابق جداگانہ نصاب کی کوفت سے نجات ملے گی ، وہیں اس قدم سے ناانصافی کو ختم کرنے میں خاصی مدد ملے گی ۔ جس کے بعد اب ، مدرسے، سرکاری اور پرائیویٹ اسکول کے بچے ایک ہی نصاب پڑھیں گے۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کہنا ہے کہ جرمنی ، انگلینڈ، چین سمیت سب ملکوں میں یکساں نصاب ہے ، تو پھر پاکستان میں کیوں نہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم کے مطابق یکساں نصاب خیبرپختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور بلوچستان میں شروع کیا جارہا ہے۔ سندھ میں بھی کوشش کررہے ہیں کہ وہاں یکساں نصاب تعلیم رائج ہو۔
سندھ کا اعتراض کیا ہے ؟
اسلام آباد کی تقریب کے لیے سندھ حکومت کو بھی دعوت نامہ ملا تھا لیکن صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ کا کہنا تھا کہ ہم تقریب میں شرکت نہیں کریں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو واضح کیا تھا کہ سائنس کا مضمون تو پورے پاکستان میں ایک ہوسکتا ہے لیکن دیگر مضامین پاکستانی اسٹیڈیز اور انگلش میں علاقائی نصاب ہونا چاہیے۔ ہر صوبے کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے نصاب تیار کرے ۔ کیونکہ تعلیمی نصاب ، وفاقی نہیں صوبائی حکومتوں کا حق ہے ۔ سندھ حکومت کا اپنا ٹیکسٹ بورڈ ہے اور نصابی ماہرین بھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اردو اور انگریزی کے ساتھ اگر سندھی پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ ہمارا آئینی اور تاریخی حق ہے جس سے ہم دستبردار نہیں ہوں گے۔ مطلب ہمیشہ کی طرح یہاں بھی بات کو سیاسی اور صوبائی رنگ دے دیا گیا۔
Discussion about this post