شامی خاتون منال راویہ اور ان کا 18برس کا بیٹا بلال بتوس نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں بائیو میڈیکل سائنس پڑھنے کے لیے روز گھر سے آتے ہیں۔ یہ برطانیہ میں منفرد ماں اور بیٹے کی جوڑی ہے، جو ایک ہی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔دونوں نے حال ہی میں یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔ جبھی ہر ایک کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ شام سے ہجرت کرنے والے اس ماں بیٹے کی بڑی دکھ بھری کہانی ہے۔ وہ شامی شہر ادلب سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2015میں میزائل گھر پر گرا تو سب کچھ تباہ ہوگیا۔
منال مقامی اسپتال میں کام کرتی تھیں لیکن جنگ زدہ ماحول سے بچنے کے لیے انہوں نے شام سے ترکی کی طرف سفر کیا، جہاں سال بھر قیام کے بعد ان کا رخ برطانوی کاؤنٹی نوٹنگھم شائر کی جانب تھا۔دونوں کو ابتدا میں انگریزی بولنے میں دشواری ہوئی لیکن پھر انہوں نے 3سال کے اندر ہی اس میں مہارت حاصل کرلی۔ بلال نے دو سال کے اندر اپنا ہائی اسکول کا ڈپلومہ پاس کیا، اور پھر عربی اور سوشیالوجی میں ‘اے لیول’ کے ساتھ برٹش پیئرسن انسٹی ٹیوشن کی طرف سے جاری کردہ سائنسز کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایسے میں 47برس کی منال راویہ کو بتایا گیا کہ اگر وہ برطانیہ میں کسی لیبارٹری یا اسپتال میں کام کرنے کی خواہش مند ہیں تو انہیں دمشق یونیورسٹی کی ڈگری کے علاوہ برطانوی یونیورسٹی کی ڈگری کی بھی ضرورت ہوگی۔
اسی بنا پر دونوں نے ایک ہی وقت میں ڈگریاں حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی میں کورسز کے لیے درخواست دی، جہاں ان کا داخلہ بھی ہوگیا۔ بلا ل کاکہنا ہے کہ اُس نے میڈیکل سائنس پڑھنے کا ارادہ، والدہ کو اسپتال میں کام کرتے ہوئے جب دیکھا تو تب سوچا تھا۔ اُسے احساس ہوا کہ دراصل اسپتالوں میں دکھی انسانیت کی خدمت کی جاتی ہے، بس یہی سوچ کر اس نے میڈیکل کے شعبے میں قدم رکھا۔ اب ماں بیٹے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہیلتھ سروس میں ملازمت کرنے کے خواہش مند ہیں۔ بلال کہتے ہیں کہ ابتدا میں اُنہیں عجیب لگا کہ نوجوانوں کے درمیان ان کی والدہ‘ انہی کی کلاس میں ہیں لیکن پھر جیسے ان کو عادت ہوگئی۔
بلال کے مطابق منال کیمسٹری میں بہت اچھی ہیں، جن سے وہ مدد لیتے رہتے ہیں۔تین بیٹوں اور میاں بیوی کا یہ خاندان برطانیہ میں خاصا مقبول ہوگیا ہے۔ منال کے مطابق اب بیٹے بلال کے ساتھ اُن کا مقابلہ ہے، وہ زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرکے بیٹے پر سبقت لے جائیں۔
Discussion about this post