کہتے ہیں کہ بزدل اور کمزوروں کے اعصاب پر خوف سوار ہو، تو وہ اپنے سائے سے بھی لرز اٹھتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال انتہا پسند بھارتی حکومت کی بھی ہے، جو برسوں سے مقبوضہ کشمیر میں طاقت کے بل بوتے پر وادی کے عوام کے حقوق پر غاصب بن کر بیٹھی ہے۔ جہاں کہیں کوئی آزادی کی للکار یا فریاد اٹھتی ہے تو اُسے کچلنے کے لیے بھرپور ریاستی دہشت گردی کا بدترین مظاہرہ ہوتا ہے ۔ آزادی کی تحریک کا ہی یہ خوف بابائے حریت سید علی گیلانی کی تدفین تک پر غالب رہا۔
— Arif Rafiq (@ArifCRafiq) September 1, 2021
وادی میں انٹرنیٹ سروس بند ہے، کرفیو لگا کر کشمیریوں کو گھروں میں قید کیا ہوا ہے، جگہ جگہ حسب روایت ناکے ہیں، کوئی گاڑی سڑک پر نکلتی تو بھارتی فوجی چاروں طرف سے اُسے گھیر کر پوچھ گچھ شروع کردیتے، کوشش بس یہی تھی کہ حریت رہنما کو آخری الوداع کہنے کے لیے کوئی گھروں سے نہ نکلے۔
صبح کا سورج ابھی طلوع بھی نہیں ہوا تھا کہ جدوجہد آزادی کا چمکتا دمکتا آفتاب سید علی گیلانی کا جسد خاکی حیدر پورہ قبرستان لایا گیا، جہاں چاروں طرف بندوق کے سائے تھے، بھارتی فوجیوں کا محاصرہ تھا۔ حیدر پورہ قبرستان میں سید علی گیلانی کے قریبی رشتے دار اور احباب وہی تھے، جنہیں بھارتی فوج نے آنے کی اجازت دی تھی۔ ہر آنکھ اشکبار تھی، چہروں میں دکھ اور درد کے سائے تھے۔ سید علی گیلانی کو خاموشی کے ساتھ سپرد خاک کرنے کے بعد قابض بھارتی فوج نے بے رحمی اور درندگی کا ایک اور مظاہرہ کرتے ہوئے قبرستان کو بھی سیل کردیا۔
بابائے حریت سید علی گیلانی کی سحر انگیز شخصیت
چہرے پر بلا کی شفقت، گفتگو میں شائستگی، دلائل ایسے کہ مخالفین بھی قائل ہوئے بغیر نہ رہیں، ڈھلتی عمر کے باوجود پرعزم اور پرجوش، جن کی تقاریر سن کر سامعین میں ایک نیا ولولہ اور نئی امنگ جاگ اٹھتی، 92 برس کے ہونے کے باوجود آنکھوں میں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے خواب ہمیشہ جھلملاتے رہتے، ملاقاتی تو جیسے اُن کی سحر انگیز شخصیت کے اسیر بن جاتے، ممکن ہے کہ یہ تعارف انتہائی ناکافی ہو، اُس عمر رسیدہ حریت رہنما کا، جسے دنیا سید علی گیلانی کے نام سے جانتی تھی، جنہیں ’بابائے حریت‘ کا خطاب ملا، جن کو دیکھنے کے بعد جدوجہد آزادی کے نوجوان کارکنوں میں جیسے نئی ہمت اور حوصلہ آتا۔ جو 12 برس سے بھارتی فورسز کے ہاتھوں گھر میں نظر بند رہنے کے بعد بدھ یکم ستمبر کی رات اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ جن کی وفات پر صرف مقبوضہ کشمیر ہی نہیں، پاکستانی عوام اور دنیا بھر میں رہنے والے کشمیری غم زدہ ہیں۔
سید علی گیلانی جن کی آرزو تھی کہ وہ اپنی زندگی میں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھیں،وہ خود آزادی کا چمکتا دمکتا ستارہ بن کر ڈوب گئے لیکن دوسروں کے لیے ایک امید پھر بھی روشن کر گئے ہیں۔ جو ہر پلیٹ فارم پر بھارتی مظالم کو بے نقاب کرتے۔ جو بار بار بھارتی حکومت کو اُس کا وہ وعدہ یاد دلاتے جو اس نے اقوام متحدہ میں کیا تھا۔ آزادی کی اسی للکار سے ڈری سہمی بھارتی حکومت کسی نہ کسی بہانے سید علی شاہ گیلانی کو پابند سلاسل کرتی رہتی۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ انہوں نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی بھارتی جیلوں میں گزاری۔ 1993میں اُن کی جیل میں ہی لکھی کتاب ’روداد قفس‘ شائع ہوئی ، جس میں انہوں نے اسیری کے دوران بھی دوسرے کشمیریوں کے اندر یہ آرزو بلند رکھی کہ حالات اور واقعات چاہے کیسے ہوں، بھارتی حکومت چاہے کتنے ہی قہر برسائے، امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔
یہی نہیں حریت رہنما کی 2000میں آنے والی کتاب ’کرالا سے جودھ پور تک‘ کے سرورق پر جیل کی سلاخیں اور تالے دراصل اس جلادیت کی عکاسی کررہے تھے جو بھارتی فوج اور حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کر رکھے ہیں۔
A man who was totally committed to Pakistan and the Kashmir cause . He was flag- bearer of Kashmiri freedom movement and staunch opponent of India’s illegal occupation. End of an era and great loss. May Allah bless your soul . Ameen #SyedAliGillani #KashmirBleedsGreen #Kashmiris pic.twitter.com/dejEtaTLty
— Brigadier Masud Ahmad Khan – Retd (@MasudAKhan6) September 2, 2021
سید علی گیلانی نے درحقیقت قید و بند کی کئی تکلیفیں برداشت کیں لیکن کبھی بھی بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں غاضبانہ قبضے کو تسلیم نہیں کیا۔ حکومت پاکستان نے ان کی طویل جدوجہد آزادی کے اعتراف میں گزشتہ برس ’نشان پاکستان‘ سے بھی نوازا تھا۔ پاکستانی قومی، عسکری اور سیاسی قیادت نے سید علی گیلانی کی وفات کو قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں پاکستانی پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کیا۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ سید علی گیلانی نے بدترین بھارتی مظالم کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے موقف میں کوئی لچک نہیں پیدا کی۔ سید علی گیلانی پوری زندگی کشمیریوں کے حق خودارادیت کی جدوجہد کرتے رہے۔ صدر پاکستان عارف علوی کے مطابق سید علی گیلانی باہمت، نڈر اور مخلص رہنما تھے، جو عمر بھر بھارتی دہشت گردی کے خلاف ڈٹے رہے، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ سید علی گیلانی کی زندگی بھر کی قربانیاں اور مسلسل جدوجہد کشمیریوں کے بھارتی قبضے کے خلاف ناقابل تسخیر عزم کی علامت ہے۔
Discussion about this post