پاکستان کے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔تاریخی اعتبار سے بھی بلوچستان کا خطہ بہت زرخیز ہے۔ سکندر اعظم کی اپنے دیس واپس لوٹنے کا سفر ہو یا عربوں کی فتوحات اس خطہ زمین نے بہت کچھ دیکھا۔ انسانی تہذیب سے قبل کی تاریخی اہمیت بلوچستان کو حاصل ہے۔ اس کا سبب انيسویں صدی میں ڈیرہ بگٹی اور گرد و نواح میں دریافت ہونے والی ڈائنوسارز کی باقیات ہیں۔
بلوچستان اور اس سے ملحقہ علاقے ان دیوقامت ڈائنوسارز کے قدموں کی دھمک سے لرز اٹھتے تھے۔ ڈائنوسارز کا ذکر ہم نے کتابوں میں پڑھا یا ہالی ووڈ کی اینی میشن سے بھرپور فلموں میں تو دیکھا ہی ہے۔ ڈائنوسارز کی نسل سے تعلق رکھنے والے بلوچی تھیریم کی ڈیرہ بگٹی میں دریافت نے سائنسدانوں کو اس خطے کی تاریخ کے حوالے سے سوچنے اور کھوجنے پر مجبور کردیا۔ڈیرہ بگٹی اور گرد و نواح میں دریافت ہونے والی ڈائنوسارز کی باقیات کو ‘بلوچی تھیریم‘ یا بِیسٹ آف بلوچستان کہا جاتا ہے۔ 1910 میں فوسلز کے انگریز ماہر اور کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر سر فورسٹر کوپر نے نیشنل جیوگرافک کے تعاون سے برطانوی زیر انتظام بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں کھدائی کی اور قدیمی دور کے ڈائنو سارز کی ہڈیاں دریافت کیں، جن کا سائز غیر معمولی تھا۔ اگرچہ یہ ایک چونکا دینے والی دریافت تھی مگر کئی عشروں تک اس پر کوئی قابل ِ ذکر تحقیق نہیں ہو سکی۔
اس کے باون سال بعد ڈیرہ بگٹی کے ایک اور علاقے سے بلوچی ممالیہ کا ڈھانچہ بر آمد ہوا تب دنیا بھر کے ماہرین تاریخ و فوسلز کی توجہ بلوچستان کی طرف مبذول ہوئی۔1990 میں فرانسیسی ماہرِ فوسلز ژاں لُو ویلکوم تحقیق کی غرض سے بلوچستان آئے اور ڈیرہ بگٹی کے علاقے سے مزید فوسلز دریافت کیے۔
بلوچستان کی تاریخ کتنی قدیم ہے؟
تاریخی و جغرافیائی حوالہ جات کے مطابق تقریباً 30 ملین سال پہلے بر اعظم ایشیاء ڈائنو سارز جیسے عظیم الجثہ جانوروں کی آماجگاہ تھا۔ اس دور میں بارشوں کی کثرت کی وجہ سے يہ علاقہ آج کے ایمیزون جنگلات کی طرح گھنا تھا۔ اس باعث بغر سینگ کے سبزی خور رائی ناسیروس یا گینڈوں کی نشوو نما اور افزائش کے ليے يہ بہترين علاقہ ثابت ہوا۔ اس قسم کے گینڈے کا قد 25 میٹر سے زائد اور وزن 20 ٹن سے بھی زیادہ تھا۔ اندازہ لگایا گیا کہ آج سے 7 کروڑ سال پہلے بلوچستان دریاؤں اور جنگلات سے گھری ایک سر سبز چراگاہ تھا۔
بلوچی تھیریم کی دریافت کیسے ہوئی؟
فرانسیسی ماہرِ فوسلز ژان لُو ویلکوم اور ان کے معاون گریگور میٹیاز نے نواب اکبر بگٹی کے تعاون سے ڈیرہ بگٹی میں تقریبا 200 مربع کلومیٹر کے علاقے میں 40 مقامات پر کھدائی کی۔ انہیں بلوچی تھیریم کی باقیات کے علاوہ مچھلی، مگرمچھ، کچھووں، روڈینٹس اور دیگر ممالیہ جانوروں کے فوسلز ملے۔ ماہرین کے مطابق ڈیرہ بگٹی کو دنیا میں فوسلز کا سب سے بڑا میدان سمجھا جاتا ہے۔ ”ہمیں یہاں سے جو ہڈیاں ملیں ان کا لیبارٹری میں تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ ان ہڈیوں پر عظیم الجثہ مگرمچھوں کے دانتوں کے نشانات تھے، یعنی سبزی خور بلوچی تھیریم ان مگر مچھوں کی خوراک تھے۔‘‘جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے ماہرِ ارضیات محمد صادق ملکانی کو سن 2001 میں بارکھان سے 35 کلومیٹر دور وٹاکری کے مقام پر چٹانوں کے نیچے سے کچھ فوسلز ملے تھے۔
ماہرین نے بلوچی تھیریم کی ہڈیوں کو جوڑ کر ایک ڈھانچہ بھی تیار کیا جو اگرچہ مکمل نہیں تھا، مگر اس میں جو ہڈیاں جوڑی گئیں وہ مختلف جسامت کے ڈائنو سارز کی تھیں۔ سب سے حیران کن دریافت یہاں سے ملنے والی لیمر کی باقیات تھیں۔ بڑی بڑی آنکھوں والا بندر نما یہ جانور صرف مڈغاسکر کے ساحلوں پر پایا جاتا ہے مگر بلوچستان میں اس کی ہڈیاں ملنے سے دنیا بھر کے ماہرین ِ حیوانات و فوسلز حیران ہو گئے تھے۔
پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری
پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری اسلام آباد میں ڈیرہ بگٹی سے بلوچی تھیریم کی دریافت کی روشنی میں فائبر گلاس سے تیار کردہ ماڈل رکھا ہوا ہے۔اگرچہ بلوچی تھیریم کے قد کی درست نشاندہی کر دی گئی تھی مگر اس کے وزن کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں تھا۔ اس مسئلے کے حل کے ليے ایک ہڈی کی گولائی ماپ کر جو نتیجہ نکالا گیا، اس سے معلوم ہوا کی ان ڈائنو سارز کا وزن 20 ٹن سے زیادہ تھا۔تواگلی دفعہ جراسک پارک فلم دیکھ رہیں ہونگے تو یاد رکھیئے گا کہ اگر اس دور میں آپ کی پیدائش ہوتی تو بلوچی تھیریم آپ کے آس پاس ہی ہوتے اوران کی دھمک سے آپ کے پیروں تلے زمین کھسکتی محسوس ہوتی.
Discussion about this post