ونود دُوا گزشتہ کئی دنوں سے کورونا سے جنگ لڑ رہے تھے۔67برس کے ونود نے صحافت کا آغاز مختلف اخبارات سے کیااور پھر ’دور درشن‘ اور ’این ڈی ٹی وی‘ سے منسلک ہوگئے۔ بھارت میں نجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا تو وہ مختلف ٹی وی چینلز سے اپنے میٹھے، بے لاگ اور غیر جانبدارنہ تبصروں کی بنا پر شہرت حاصل کرگئے۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز سے بھی اپنے صحافتی سفر کو جاری رکھا۔ مودی حکومت کے جابرانہ اور متعصبانہ اقدامات پر وہ کھل کر تنقید کرتے۔ جن کے متعلق کہا جاتا کہ وہ کبھی بھی حکومتی خوشامد کے قائل نہیں رہے۔ نئی دہلی میں پیدا ہونے والے ونود دُوا بھارت کے پہلے الیکٹرانک میڈیا کے صحافی تھے جنہیں 1996میں ’رام ناتھ گوینکا ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ جبکہ 2008میں شعبہ صحافت میں ان کی خدمات کے اعتراف میں ’پدم شری‘ بھی ملا۔ ونود وُدا کی شریک سفر کا رواں برس ہی کورونا وبا کی وجہ سے وفات ہوئی تھی۔
مودی حکومت کے ناقص حفاظتی اقدامات پر ونود دُوا کی بیٹی ملکا دُوا سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کرتی تھیں، جنہوں نے والد کے چل بسنے کی اطلاع سوشل میڈیا پر دیتے ہوئے لکھا کہ ’ اُن کے بے پروا، بے خوف اور غیر معمولی والد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔‘۔ونود دُوا کا مشہور ترین ٹی وی شو ’ذائقہ انڈیا کا‘ رہا۔ جس کے ذریعے انہوں نے بھارتی ثقافت کے مختلف رنگ و روپ پیش کرتے کھانوں کی سوغات پہنچائی۔ ونود کی وفات پر ان کے پرانے دوست اور ’این ڈی ٹی وی‘کے ہوسٹ راویش کمار کا کہنا ہے کہ ’ونود کے پاس الفاظ کا ذخیرہ تھا لیکن وہ ایک ایک لفظ کی ادائیگی بہت سوچ سمجھ کر کرتے۔کب کیا بولنا اور کس طرح اُن کی ادائیگی کرنی ہے، یہ اُن کا خاصہ رہا۔ وہ پرسکون، مٹھاس اور دھیمے انداز میں ایسی گفتگو کرتے، جو دلوں میں گھر کر جاتی۔ وہ صحافتی ذمے داریوں سے واقف تھے اور اُنہیں اس بات کا احساس رہا کہ ایک ٹی وی اینکر کی حد کیا ہوتی ہے۔ وہ جب کسی پروگرام کی میزبانی کرتے تو ایسامحسوس ہوتا جیسے اُ ن کے سامنے کیمرا نہیں بلکہ ناظرین بیٹھے ہیں۔‘
Discussion about this post