ایک زناٹے دار طمانچے کی گونج جب لکھنو کی مصروف شاہراہ پر گونجی تو راہ گیر ہو یا سوار سب پل بھر کے لیے جیسے رک گئے۔ اب ایسے میں معاملے کو جانے بغیر کچھ افراد ’ہیرو‘ بننے کے چکر میں ڈرائیور پر ٹوٹ پڑے۔ جن کا عام خیال یہی تھا کہ یقینی طور پر ڈرائیور نے جنسی ہراسانی کی کوئی جسارت کی ہوگی، جبھی راہ گیر لڑکی نے اس پر طمانچہ دے مارا۔ اس لڑکی کا غصہ صرف تھپڑ مارنے پر ہی ٹھنڈا نہیں ہوا، بلکہ ڈرائیور کا موبائل فون چھینا اور زمین پر مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ٹیکسی ڈرائیور کی گاڑی کا بیک مرر ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ ہجوم زیادہ بڑھا تو کچھ عقل مندوں نے بیچ بچاؤ کرتے ہوئے ڈرائیور کی جان اس لڑکی سے چھڑائی۔
لڑکی اس قدر چراغ پا کیوں ہوئی؟
ابتدا میں پریا کا کہنا تھا کہ ڈرائیور نے اس سے بدسلوکی کی لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج نے اس کی غلط بیانی کی ساری پول پٹی کھول دی۔ جس میں صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ لکھنو کی زبیرا کراسنگ پر جب ڈرائیور سعادت علی نے ٹیکسی روکی تو قریب سے پریا درشنی نامی لڑکی گزری۔ جس کی گاڑی سے ٹکر ہوتے ہوتے رہ گئی۔ جس کے بعد وہ اس قدر آگ بگولہ ہوئی کہ ڈرائیور کو گاڑی سے نکال کر مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ پولیس نے تحقیقات کیں تو لڑکی کا جنسی ہراسانی کا الزام غلط ثابت ہوا، تب اس لڑکی نے ایک اور بیان داغا کہ ڈرائیور نے اچانک اور تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی کے بریک مارے کہ اگر وہ نہ دیکھتی تو ممکن ہے کہ زخمی ہوجاتی اور اسی بات پر اسے غصہ تھا کہ ڈرائیور نے اس قدر لاپرواہی کیوں دکھائی۔

عینی شاہدین کا بیان
لڑکی کے بیان کے برعکس عینی شاہدین کچھ اور وجوہات بیان کرتے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ پریا درشنی نے صرف ایک تھپڑ ہی نہیں بلکہ غریب ڈرائیور پر طمانچوں کی برسات کی۔ یہاں تک کہ اس کا گریبان پکڑ کر اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ لڑکی نے برے الفاظ کی بھرمار بھی کی۔ ڈرائیور سعادت علی بار بار یہ التجا کرتا رہا کہ اُس کا قصور بتایا جائے لیکن آپے سے باہر لڑکی نے اس کی ایک نہ سنی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ڈرائیور ریڈ سگنل ہونے پر خود کو سگنل توڑنے سے باز رکھنے کے لیے ہنگامی بریک لگا رہا تھا۔ ایک اور عینی شاہد کے مطابق پریا نے اُس وقت زیبرا کراسنگ کی جب سگنل گرین تھا۔ پریا کا یہ تشدد پولیس کی مداخلت کے باعث رکا۔ جس نے لڑکی کو تو چلتا کیا البتہ ڈرائیور کو تھانے لے گئی۔

واقعہ کب پیش آیا اور پولیس کا ایکشن
ممکن ہے کہ تیس جولائی کو ہونے والا تشدد کا واقعہ لوگ بھول جاتے، لیکن کسی راہ گیر نے ساری ایکشن سے بھری اس فلم کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا تو یہ دیکھتے ہی دیکھتے ویڈیو وائرل ہوگئی۔ جس کے ساتھ ہی ٹریفک سگنل پر لگے کیمروں کی وہ فوٹیج بھی منظر عام پر آگئی، جس میں صاف طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ گاڑی رکنے سے لڑکی کو کسی صورت کوئی نقصان نہیں ہوا تھا ، بلکہ ڈرائیور نے گرین سگنل پر سڑک کراس کرنے والی پریا کو بچایا تھا۔ ڈرائیور کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے پریا نجانے کیوں جنونی اور پرتشدد روپ دھار گئی۔ ایک عام تاثر یہ تھا کہ لڑکی نے صنف نازک ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈرائیور پر غیر ضروری تشدد کیا۔ ویڈیو وائرل ہوتے ہی لکھنو کی مقامی پولیس بھی ایکشن میں آئی۔ جس نے لڑکی کے اس رویے پر باقاعدہ ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ جب کہ تین اور افراد کے خلاف نقص امن میں خلل ڈالنے پر کارروائی ہوئی۔
ٹیکسی ڈرائیور سعادت علی کا مؤقف
ٹیکسی ڈرائیور سعادت علی نے الزام لگایا ہے کہ واقعے کے بعد پولیس اسے گرفتار کرکے تھانے لے گئی اور 24گھنٹے حوالات میں رکھا۔ وکیل کے ذریعے اس کی ضمانت ہوئی، جس کے بعد انہوں نے اُس لڑکی کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ ڈرائیور کے مطابق لڑکی نے گاڑی میں رکھے ہوئے 600 روپے تک چھین لیے۔ سعادت علی کا کہنا ہے کہ عام طور پر یہ کیوں سمجھ لیا جاتا ہے کہ مرد ہی قصور وار ہے، ضروری نہیں کہ ہر بار مرد ہی غلطی کرتے ہوں۔ اس واقعے کے بعد اب سوشل میڈیا پر پریا نامی لڑکی کی گرفتاری کا ہیش ٹیگ گردش میں ہے۔
This needs to be justified now…The girl in this video should be arrested for doing this behaviour infront of @Uppolice @uptrafficpolice #ArrestLucknowGirl pic.twitter.com/vB4suEEStk
— kuldeep singh Tomar (@kuldeepsinghto4) August 2, 2021
Here’s the full video. Ab batao galti kiski hai? 😠
Please RT and tag @Uppolice#ArrestLucknowGirl
— Shahcastic – Mota bhai 😎 (@shahcastic) August 2, 2021
Plz stop excess women empowerment
Men aren’t always wrong#ArrestLucknowGirl #justiceforcabdriver #CabDriver #lucknowgirl @Uppolice https://t.co/sjLCQh2OVM— SWARAJ (@SWARAJ34992201) August 3, 2021
Discussion about this post