بھارت میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ جس نے بھارتی معاشرے میں بے چینی محسوس کی جارہی ہے۔ وزارت صحت کے تازہ ترین خاندانی سروے کی 2سال کی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ بھارت میں ہر ایک ہزار مردوں کے مقابلے پر 1020خواتین ریکارڈ کی گئیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب بھارت میں مرد حضرات کی تعداد گھٹ رہی ہے اور خواتین میں اضافہ ہورہا ہے۔ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بھارت کی تولیدی شرح اوسطاً 2 فی صد تک گر گئی ہے۔ شہری علاقوں میں یہ 1.6فی صد پر پہنچ گئی ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ پرانی نسل کی جگہ لینے کے لیے بچوں کی پیدائش نہیں کی جارہی ہے۔ یہ اس اعتبار سے قابل فکر ہے کہ 1950میں بھارتی خواتین کے اوسطاً6بچے ہوتے تھے۔ بظاہر یہ اس جانب بھی اشارہ ہے کہ بھارت میں اولاد کی خواہش کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔
اس کی اہم وجہ یہ بھی بیان کی جارہی ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، ناکافی طبی سہولیات اور دیگر حکومتی مراعات کی عدم فراہمی کی بنا پر والدین بچوں کی تعداد بڑھانے پر توجہ نہیں دے رہے۔ اسی طرح خواتین میں اضافہ اس اعتبار سے تشویش ناک ہے کہ بھارت میں لڑکی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بالخصوص اس کی پڑھائی لکھائی اور پھر شادی بیاہ کے اخراجات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے یہاں لڑکا جنم لے۔ گو کہ بھارت میں جنس کی شناخت پر پابندی ہے لیکن بیشتر خاندان بھاری رقم استعمال کرکے یہ معلوم کرلیتے ہیں کہ اُن کے ہونے والا بچہ، لڑکی ہے یا لڑکا۔ لڑکی کی صورت میں اسقاط حمل کرادیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود خواتین کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ بھارت کی مجموعی آبادی 1.3بلین بتائی جاتی ہے اور اقوا م متحدہ کے اندازے کے مطابق اس دہائی کے اختتام تک یہ آبادی چین سے بھی آگے نکل جائے گی۔
Discussion about this post