بھارت کے شمال مشرق میں واقع تبت کے علاقے میں بدھ مذہب کے لوگوں کی اکثریت ہے تبت کو چین میں ایک خود مختار حصے کی حیثیت حاصل ہے۔ چین کا ماننا ہے کہ صدیوں سے خطے پر اس کی حکمرانی رہی ہےاور انڈیا کے شمال مشرقی صوبے اروناچل پردیش میں 90 ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ در اصل تبت کا حصہ ہے ۔ دوسری طرف انڈیا اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے واویلا کرتا ہے کہ متعلقہ علاقہ بھارت کا ہی حصہ ہے اور چین اس کی خود مختاری کو چیلنج کر رہا ہے۔ تبت کے علاقے سکم سے لداخ تک بھارت کی چین کے ساتھ ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے اور تنازع دیرینہ ہے ۔ حالانکہ جون 2003 میں انڈیا نے یہ باضابطہ طور پر قبول کر لیا تھا کہ تبت چین کا حصہ ہے۔ چین کے صدر جیانگ جیامن کے ساتھ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ملاقات کے بعد بھارت نے پہلی بار تبت کو چین کا حصہ تسلیم کر لیا تھا۔ واجپائی اور جیانگ جیامن کے مذاکرات کے بعد چین نے بھی بھارت کے ساتھ سِکم کے راستے تجارت کی شرط بھی قبول کر لی تھی۔ البتہ بھارتی فوج نے اُس وقت کہا تھا کہ نئی دہلی نے پورے تبت کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا ہے جو چین کا بڑا حصہ ہے بلکہ صرف اُس حصے کو تسلیم کیا ہے جو تبت کا خود مختار علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔
تبت کی ایک وادی گلوان میں گزشتہ سال بھارتی اور چینی افواج کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس کی ویڈیوز چین نے اس وقت جاری کی تھی جس میں بھارتی فوجیوں کو چینی فوجیوں کی طرف سے پیر پڑتے بھی دیکھا گیا تھا۔ لیکن اُس تنازع کی کچھ مزید ویڈیوز چین نے حالیہ دنوں میں دوبارہ جاری کی ہے جس میں بھارتی فوج سے سخت سلوک دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارتی فوج کے اہلکاروں کی آنکھیں بھی سوجھی ہوئی تھیں۔ ان نئی ویڈیوز کو دیکھتے ہوئے بھارتی افواج کی صلاحیت کی حقیقت دنیا کے سامنے ایک بار پھر ظاہر ہوگئی ہے ۔ انہیں وڈیوز کو لیکر بھارتی فوج کو سوشل میڈیا پر بھی اپنے ہی ملک میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ اسکے پاس اب بھی اس لڑائی کی کچھ اہم ان دیکھی ویڈیوز موجود ہیں۔ اگر یہ کشیدگی بڑھتی رہی تو آنے والے دنوں میں وہ بھی سامنے لائی جاسکتی ہیں جس سے بھارت میں اپنی ہی فوج کے خلاف مورال کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان گزشتہ اتوار کو کور کمانڈروں کے درمیان سرحد سے فوجیں پیچھے ہٹانے کے سوال پر بات چیت ناکام ہو گئی تھی۔یہ مذاکرات اتنی بُری طرح ناکام ہوئے ہیں کہ پہلی بار چین نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ مذاکرات صرف انکی شرائط پر ہونگے۔ چین اور بھارت کے مابین اس کشیدگی کی بڑی وجہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو یا بی آر آئیکو بھی سمجھی جارہی ہے جو دنیا بھر میں اپنی سرمایہ کاری کو وسعت دینے کا چین کا ایک بڑا منصوبہ ہے جس کے تحت چین ایشیا اور یورپ میں سڑکوں اور بندرگاہوں کا جال بچھانا چاہتا ہے تاکہ چین کے سامان کو عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل ہو سکے۔ چین نے اس منصوبے میں بھارت کو شامل کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر بھارت اس میں شامل نہیں ہوا ہے اور اب اپنی اس محرومی کا بدلہ چین کےساتھ اس طرح سرحدی تنازعہ کو ہوا دے کر کر رہا ہے ۔
اسی ضمن میں بھارت چین کے ساتھ مختلف شرارتیں بھی کرتا رہتا ہے ۔ بھارت لداخ میں جس سڑک کی تعمیر کررہا ہے وہ لائن آف ایکچول کنٹرول پر براہ راست چین کی سرحد کی طرف جاتی ہے۔ بھارت کی یہ اسٹریٹجک سڑک چین کے توسیع پسندانہ ایجنڈے کے لیے چیلنج ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ بھارت نے اس کے ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو کو چیلنج کرنے کے لیے یہ سڑک تعمیر کی ہے۔ اس کے علاوہ چین ون بیلٹ ون روڈ کے تحت اپنا ایک ہائی وے بھوٹان کے راستے تعمیر کر رہا تھا لیکن اس وقت بھارت نے بھوٹان کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے بھوٹان میں اس منصوبے کو روک دیا تھا۔ بھارت اپنی محرومی اور اس منصوبے میں شامل ہونے کے لیے ایسی حرکتیں تو کر رہا ہے مگر اس کی فوجی اور سیایس طاقت اتنی نہیں ہے کہ وہ چین کا مقابلہ کر سکے۔
Discussion about this post