چین کا دارالحکومت بیجنگ امسال سرمائی اولمپکس کے بعد اولمپکس کے کھیلوں کی دو دفعہ میزبانی کرنے والا دنیا کا پہلا شہر بن چکا ہے۔ بیجنگ نے اس سے پہلے سنہ 2008 میں گرمائی اولمپکس کے کھیلوں کی میزبانی کی تھی۔ تب سے اب تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔ تب دنیا کھلی ہوئی تھی۔ لوگ ہر جگہ سفر کر سکتے تھے۔ کھیلوں میں شرکت کر سکتے تھے۔ اس دفعہ ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ اور وجہ تھی کرونا کی عالمی وبا۔ اس وبا کے دوران کھیل منعقد کرنا اپنے آپ میں ایک چیلنج تھا۔ پھر اس بات کی یقین دہانی کرنا بھی ضروری تھا کہ ان کھیلوں میں شامل تمام افراد محفوظ رہیں اور وہ کھیل کسی بھی طرح وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ نہ بنیں۔
بیجنگ سے پہلے ٹوکیو نے گرمائی اولمپکس کرونا کے دوران منعقد کیے۔ وہ ماضی میں ہونے والے اولمپکس کے کھیلوں سے بے حد مختلف تھے۔ رنگا رنگ میدان تھے۔ کھلاڑی تھے۔ میڈیا تھا۔ لیکن شائقین نہیں تھے۔ بیجنگ نے بھی اسی روایت کو برقرار رکھا۔ تاہم، یہاں کچھ تقریبات میں مخصوص مہمانوں کو سیکیورٹی پروٹوکول کے ساتھ شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔
تقریبات میں شامل ہونے والے افراد کے لیے تقریبات سے ایک ماہ پہلے تک بیجنگ میں موجود ہونا لازمی تھا۔ اس کے علاوہ ان کے لیے کرونا وائرس کی ویکسین کے مکمل کورس کے ساتھ بوسٹر شاٹ کا مکمل ہونا بھی لازمی تھا۔ ہر تقریب سے دو روز قبل ان کے دو مرتبہ پی سی آر ٹیسٹ بھی کیے گئے۔ اس کے بعد انہیں تقریب میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔
گذشتہ روز سرمائی اولمپکس کی اختتامی تقریب میں بیجنگ نے اولمپکس میں شامل تمام افراد کو آخری سلام پیش کیا۔ سرمائی اولمپکس کے دوران پوری دنیا نے اپنی ٹی وی اسکرین پر اولمپکس کا جو جوش و خروش دیکھا وہ خود بیجنگ میں نظر نہیں آیا۔
چین نے اولمپکس کو بس ایک بند لوپ تک محدود رکھا ہوا تھا۔ اولمپکس میں شامل لوگ عام عوام کے ساتھ رابطے میں نہیں آ سکتے تھے۔ باقی شہر کو دیکھو تو وہاں وہی چل رہا ہے جو سال بھر چلتا ہے۔ کسی کو جیسے معلوم ہی نہیں کہ وہاں اولمپکس ہو رہے ہیں۔
بس کچھ مصنوعات پر اولمپکس کا لوگو نظر آ جاتا ہے۔ ٹی وی پر لائیو نشریات دیکھی جا سکتی تھیں۔ نئے چینی سال کے موقع پر بہت سی جگہوں پر نئے سال کی سجاوٹ کے ساتھ ساتھ اولمپکس کا لوگو بھی دکھائی دیا تھا۔
شہر میں بہت سے مقامات جیسے کہ سب وے اسٹیشن اور شاپنگ مالز میں مختلف سرمائی کھیلوں کے بارے میں معلوماتی بورڈ اور نوٹس بھی لگائے گئے ہیں۔ لوگ بے شک کھیلوں میں شرکت نہیں کر سکتے تھے لیکن ان کے بارے میں جان سکتے تھے۔
گرمائی اولمپکس کے وقت بیجنگ ایسا نہیں تھا۔ اس وقت پورا شہر اولمپکس کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ لوگ ٹکٹ خرید کر کھیل دیکھنے جا سکتے تھے۔ ہر طرف اولمپکس کا لوگو اور اشتہار نظر آ رہے تھے۔
بلال مسعود خان اس وقت چین کے دارالحکومت بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے کے ساتھ منسلک اسکول میں زیرِ تعلیم تھے۔ ان کے والد مسعود ستار پاکستانی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کی جانب سے اولمپکس کے کھیلوں کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔
بلال بتاتے ہیں کہ اس وقت جن کے پاس اولمپکس کارڈ تھے وہ بیجنگ کی پبلک ٹرانسپورٹ پر مفت سفر کر سکتے تھے۔ اس کے علاوہ اولمپکس کے لیے خصوصی بس سروس بھی چلائی گئی تھی۔ وہ تمام لوگ جن کے پاس اولمپکس کارڈ یا ٹکٹ تھے وہ ان بسوں کے ذریعے مفت میں اسٹیڈیم پہنچ سکتے تھے۔
علاوہ ازیں، اس وقت بیجنگ میں موجود بہت سے ٹیکسی ڈرائیوروں کو انگریزی زبان کا بنیادی کورس بھی کروایا گیا تھا تاکہ وہ اولمپکس کے لیے بیجنگ آنے والے بین الاقوامی افراد کے سوالوں کا انگریزی میں جواب دے سکیں۔
”چینی حکومت نے اس وقت ایک ہیلپ لائن کا اجراء بھی کیا تھا۔ اس ہیلپ لائن پر موجود افراد چینی سے انگریزی ترجمہ کرنے کے ماہر تھے۔ اگر کوئی بین الاقوامی شخص جو اس وقت بیجنگ میں اولمپکس کے لیے موجود تھا، کہیں بھی زبان کے کسی مسئلے کا شکار ہوتا تھا تو وہ ہیلپ لائن پر فون کر کے مدد طلب کر سکتا تھا،“ بلال نے تار نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا۔ اس ہیلپ لائن پر مفت کال کی جا سکتی تھی۔ بلال نے مزید بتایا کہ اس وقت اولمپکس میں ہزاروں کی تعداد میں رضا کار بھرتی کیے گئے تھے جو اولمپکس کے کھیلوں کو دیکھنے کے لیے آنے والے شائقین کی ہر ممکن مدد کر رہے تھے۔
سرمائی اولمپکس کے لیے بھی ہزاروں رضا کار بھرتی کیے گئے ہیں۔ تاہم وہ بھی بند خول میں کام کر رہے تھے۔ تقریبات پر ان کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا۔ قدم قدم پر کھڑے مسکراتے ہوئے لوگوں کو خوش آمدید کہنا، وہ بھی سخت سردی میں بہت ہمت کا کام ہے۔ ان رضاکاروں نے اپنا نیا چینی سال اپنے خاندان سے دور بند خول میں گزارا ہے۔ اولمپکس ختم ہونے کے بعد وہ تین ہفتے کا قرانطینہ کریں گے۔ پھر اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔ یہی اصول اولمپکس میں شامل چینی کھلاڑیوں اور ان تمام مقامی افراد پر لاگو ہوگا جو کسی بھی حیثیت میں اولمپکس کے کھیلوں میں شامل رہے ہیں۔
Discussion about this post