سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے شاہرا ہ فیصل پر قائم نسلہ ٹاور کو ایک ہفتے سے بارودی مواد سے گرانے کا حکم دے رکھا ہے، وہیں سندھ ہائی کورٹ نے صدر میں واقع مکہ ٹیرس کو غیر قانونی تعمیرات پر کچھ ایسا ہی حکم دیا ہے۔ دونوں تعمیراتی منصوبوں کے مکینوں کا احتجاج ہے کہ وہ سر چھپانے کے لیے کہاں جائیں۔ اُن کی یہ بھی دہائی ہے کہ اُنہوں نے تو بلڈرز کو جمع پونجی لگا کر فلیٹس خریدے تھے۔
اب اُن کے ساتھ یہ جعل سازی ہوئی کہ بلڈرز نے غیرقانونی تعمیرات کی تو آخر اُن کا کیا قصور ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے نسلہ ٹاور کے بلڈر کو پابند کیا ہے کہ وہ رہائشیوں کو ان کی رقم واپس کرے۔ درحقیقت یہ آسان کام نہیں۔ بالخصوص ایسے میں کہ بلڈرز سے رقم واپس حاصل کرنے لیے مکینوں کو ایک طویل صبر آزما امتحان سے گزرنا پڑے گا۔
کراچی میں بلند و بالا تعمیراتی منصوبے
ٹی وی کمرشلز ہو یا اخبارات کی زینت بننے والے اشتہارات،ان میں دلفریب اور حسین بلکہ پرکشش رہائشی منصوبوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔ جن کے فریب میں آکر بڑی تعداد میں کراچی والے بہترین مسکن کے لیے اپنا سرمایہ لگا دیتے ہیں۔ ان اشتہارات میں جدید ترین سہولیات اور آسان اقساط کا بھی ایسا سحر قائم کیا جاتا ہے، جس کے بیشتر افراد اسیر ہوجاتے ہیں۔
کراچی کے بیشتر علاقوں میں کم قیمت پر 2یا 3یا پھر 4کمروں کے فلیٹس اور مکانات کے بے شمار منصوبے اس وقت زیر تعمیر ہیں۔ جن کی اقساط بھری جاتی ہیں، صرف یہی سوچ کر بچوں کے لیے ایک بہترین رہائش کا انتظام ہوگا۔ کراچی میں گلستان جوہر، گلشن اقبال، سپر اور نیشنل ہائی کے ساتھ ساتھ ناظم آباد اور دیگر علاقوں میں ایسے تعمیراتی منصوبے یا تومکمل ہوچکے ہیں یا پھر ان پر کام جارہی ہے۔
فلیٹس کی خریداری کے وقت کی احتیاطیں ؟
نسلہ ٹاور یا پھر مکہ ٹیرس کی طرح غیر قانونی تعمیرات سے محفوظ رہنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ جس منصوبے پر عوام آپ سرمایہ لگا رہے ہیں، وہ ان کے پرکشش اشتہارات میں گرفتار نہ ہوں۔ کوشش کریں کہ فلیٹ یا گھر کی خریداری یا تعمیراتی منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے تمام تر جانچ پڑتال کرلیں۔ اس سلسلے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈینس 1979میں جب متعارف کرایا گیا تو اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ عوام میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ کن تعمیرات کے لیے اپنی جمع پونجی کا استعمال کریں۔اگر کوئی فلیٹ خریدنے جارہا ہے تو وہ سیکشن 4کے تحت سب سے پہلے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی این او سی ضرور دیکھے۔وہ اس بات کا جائزہ لے کہ جس تعمیراتی منصوبے میں وہ فلیٹ یا دکان حاصل کرنے جارہا ہے، کیا اُس کی این او سی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے جاری کی ہے کہ نہیں؟اگر این او سی جاری ہوئی ہے تو اس میں کوئی شرط نہیں لگی،
اگر ایسا کوئی عمل نہیں تو اس کا واضح معنی یہ ہے کہ منصوبہ مکمل طور پر محفوظ ہے۔ این او سی میں نمایاں طور پر لکھا ہوتا ہے کہ تعمیراتی منصوبے میں فلیٹس کتنے ہوں گے۔ ان کا سائز کیا ہوگا۔ کتنی منزل ہوں گی ، اس کا ایریا کیا ہوگا، مختلف اداروں جیسے کے ڈی اے، کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس نے اس منصوبے کے لیے کون کون سی اجازت دی ہے اور اس کے کتنے حصوں کے لیے متعلقہ اداروں نے اپنی خدمات دی ہیں۔ عام طور پر این او سی میں فلیٹ یا گھرکی قیمت بھی درج ہوتی ہے۔ یہ تمام تر معلومات سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی این او سی میں لکھی ہوتی ہیں۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ اس این او سی کو ایس بی سی اے سے تصدیق بھی کرالیں تاکہ اس بات کی تسلی ہوجائے کہ کہیں یہ جعلی این او سی تو نہیں ہے۔
کیا ایس بی سی اے کی ’این او سی‘ قابل اعتماد ہے؟
عوام کے لیے سب سے بڑی پریشانی کی بات یہی ہے کیونکہ اگر این او سی کی تصدیق ہو بھی جائے تو مسئلہ وہی درپیش ہوتا ہے جیسے نسلہ ٹاور اورمکہ ٹیرس کے مکینوں کو پیش آیا، کیونکہ حالیہ عدالتی سماعتوں میں اس جانب اشارہ کیا گیا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کچھ افسران غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دے رہے ہیں۔
بالخصوص سندھ ہائی کورٹ نے تو اس ضمن میں ایس بی سی اے کی سرزنش بھی کی کہ وہ کیسے غیر قانونی تعمیرات کرا رہی ہے، یہاں تک حکم دیا کہ جو افسران اس سارے معاملات میں ملوث ہیں، ان کے خلاف دفتری تحقیقات کراکے عدالت میں باقاعدہ رپورٹ بھی جمع کرائی جائے۔
عوام پھر کیا کرے؟
تعمیراتی منصوبوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی فلیٹ یا گھر کی خریداری کے لیے سب سے زیادہ آسان حل یہ ہے کہ عوام صرف انہی بلڈرز کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں، جو قابل اعتماد ہیں، جن کی ساکھ برقرار ہے۔ جن کے منصوبے گزشتہ کئی برسوں سے قائم ہورہے ہیں اور اُن کے بارے میں کسی بھی قسم کی متنازعہ خبریں عام نہیں ہوئیں۔ بصورت دیگر انہی رئیل اسٹیٹ بھی رابطہ کیا جائے تو اپنی اچھی کاروباری شہرت کی بنا پر قابل بھروسہ تصور کیے جائیں۔
Discussion about this post