عبدالرزاق گرنہ تنزانیہ میں پیدا ہوئے اور بہت کم عمری میں برطانیہ منتقل ہوگئے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد وہ اب تک 10ناول اور متعدد کہانیاں لکھ چکے ہیں، جن میں مہاجرین کی ہجرت کے تجربات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسٹاک ہوم میں ادب کے نوبل انعام کے لیے عبدالرزاق گرنہ کا انتخاب اس لیے بھی کیا گیاکیونکہ انہوں نے نوآبادیات کے اثرات کی پرجوش انداز میں اپنی تخلیقات میں تصویر کشی کی۔ نوبل ایوارڈ منتظمین کے مطابق عبدالرزاق گرنہ کی تحریروں میں ثقافتوں اور براعظموں کے درمیان خلیج میں پناہ گزینوں کی قسمت اور ان کی پریشانیوں کی عکاسی ملتی ہے۔
عبدالرزاق گرنہ نے 1994میں ناول ’پیرا ڈائز‘ لکھ کر بھی شہرت پائی۔ جس میں 20ویں صدی کے اوائل میں تنزانیہ میں پرورش پانے والے لڑکے کی داستان تھی۔ بیشتر ناقدین کا خیال تھا کہ دراصل اس لڑکے کے ذریعے عبدالرزاق گرنہ نے اپنے ہجرت کے درد اور دکھ کو بیان کیا ہے۔ عبدالرزاق گرنہ بکرپرائز کے بھی حقدار ٹھہرے۔ عبدالرزاق گرنہ یونیورسٹی آف کینٹ اور کینٹربری میں انگریزی اور پوسٹ کالونئیل ادب کے پروفیسر رہے ہیں۔
Discussion about this post