کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں اسپن کے جادوگر شین وارن پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔ میچ میں مجموعی طور پر 8 شکار کرچکے تھے۔ 1994 میں پاکستان کو پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی کے لیے 56 رنز کی ضرورت تھی لیکن صورتحال یہ تھی کہ اُس کی صرف ایک وکٹ بچی تھی۔ شین وارن کی چکما دیتی بالنگ پر پاکستانی بلے باز ایسا دھوکہ کھاتے جارہے تھے کہ وقفے وقفے سے وکٹیں گرچکی تھیں۔ کریز پر انضمام الحق آسٹریلیا کی جیت کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے تھے لیکن آسٹریلوی کپتان مارک ٹیلر کو یقین تھا کہ شین وارن کسی نہ کسی مرحلے پر انضمام کے ساتھی مشتاق احمد کی وکٹ حاصل کرکے فتح سے ہمکنار کرائیں گے۔ شین وارن مشتاق احمد کے سامنے ہر حربہ استعمال کررہے تھے لیکن وہ بھی انضمام الحق کی بیٹنگ کی دیکھ کر ڈٹ کر کھڑے تھے۔ جبھی دھیرے دھیرے انفرادی اسکور کو 20 رنز تک لے گئے تھے، جس میں 2 چوکے بھی شامل تھے۔ 10 ویں کی شراکت میں انضمام الحق اور مشتاق احمد نے نصف سنچری تک مکمل کرلی۔
آسٹریلیا سے دھیرے دھیرے فتح کی دیوی دور ہوتی جارہی تھی۔ ایسے میں صورتحال اس موڑ پر آگئی کہ پاکستان کو جیت کے لیے صرف 3 رنز درکار تھے لیکن مارک ٹیلر نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔ جبھی شین وارن کو گیند دیتے ہوئے یہی سمجھایا کہ کچھ بھی ہوجائے انہیں اس اوور میں وکٹ ضرور لینی ہے۔ شین وارن اور مارک ٹیلر کے درمیان فیلڈنگ پوزیشن کے لیے صلح مشورے ہوئے۔ہر فیلڈر چاک و چوبند ہوگیا۔ شین وارن نے ایمپائرڈکی برڈ کو اپنی ٹوپی دی۔ ایک طائرانہ نظر فیلڈنگ پوزیشن پر ڈالی۔ سامنے انضام الحق تھے، شین وارن نے اپنی زندگی کی بہترین گیند کرانے کے لیے خود کو تیار کیا۔ادھر انضمام الحق بھی 3 رنزہر صورت میں حاصل کرنے کے ساتھ اس کوشش میں بھی تھے کہ مشتاق احمد کا سامنا شین وارن سے نہ ہو۔ شین وارن نے ایک ہاتھ سے دوسرے میں گیند گھمائی اورلیگ بریک گیند ایسی پھینکی کہ انضمام الحق آگے آنے کے باوجود اسے کھیلنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ گیند ایسی برق رفتاری سے اسپن ہوئی کہ وکٹ کے عقب میں کھڑے ایان ہیلی جو شین وارن کی گیندوں پر اسٹمپ اور کیچ لینے میں مہارت رکھتے تھے، ایسا دھوکہ کھائے کہ گیند اُن کی آنکھوں کے سامنے سے ہوتی ہوئی تھرڈ مین کی پوزیشن پر آئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے باؤنڈری پار کرگئی۔ پاکستان یہ میچ بائی کے قیمتی 4 رنز کی بدولت ایک وکٹ سے جیت چکا تھا۔
آسٹریلوی کھلاڑیوں کے ہاتھ فضا میں بلند ہو کر مایوسی سے جھک گئے تھے۔ شین وارن نے حسرت سے ایان ہیلی کو دیکھا ، جنہوں نے اس یقینی اسٹمپ اور جیت کو چھوڑنے پر غصے میں وکٹوں پر غصے سے ہاتھ مارا۔ شین وارن کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ ایان ہیلی اپنے کئی انٹرویوز میں اس بات کی ندامت کا اظہار کرچکے تھے کہ شین وارن کی گیندوں پر انہوں نے مشکل سے مشکل شکار کیے لیکن ایک آسان اسٹمپ نجانے کیسے اُن سے رہ گیا ۔ وہیں وہ شین وارن سے بھی ہر بار معذرت کرتے۔ کیونکہ اس اکلوتی فتح کے بعد اگلے 2 ٹیسٹ میچز ڈرا ہوئے اور پاکستان سیریز جیتنے میں کامیاب رہا ، بہرحال شین وارن اپنی تباہ کن بالنگ کی وجہ سے پاکستانی بلے بازوں کے لیے مصیبت بنتے رہے۔ جنہیں ٹیسٹ سیریز میں 18 شکار کرنے پر سلیم ملک کے ساتھ مین آف دی سیریز قرار دیا گیا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اس دورے کے بعد 1998 میں آسٹریلوی ٹیم آخری بار پاکستان آئی اور اب 24 سال کے وقفے پر پاکستان کی ایک بار پھر مہمان بنی ہے۔
شین وارن نے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے کراچی ٹیسٹ میں انضمام الحق کو جو گیند کرائی تھی، وہ ان کی بہترین گیندوں میں سے ایک تھی لیکن بدقسمتی سے ایان ہیلی گیند کو قابو کرنے میں پتا نہیں کیوں ناکام رہے۔
Discussion about this post