”تحریم، میری امی آج مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔“
کچھ دن پہلے مجھے اپنے فون پر اپنی دوست کی طرف سے یہ پیغام موصول ہوا تو میں کچھ پُل کے لیے ساکت ہی ہوگئی۔ کسی کے والدین کی وفات کی خبر مجھے اندر تک اداس کر دیتی ہے۔ وہ تو میری دوست تھیں۔ میں کچھ دیر فون ہاتھ میں پکڑے اس پیغام کے جواب میں لکھنے کے لیے الفاظ سوچتی رہی۔ مجھے نہیں معلوم کسی سے اس کے والدین کی وفات پر تعزیت کس طرح کی جاتی ہے۔ یہ تو وہ دکھ ہے جو ہم میں سے کوئی بھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھنا چاہتا۔
بہت سوچنے کے بعد میں نے ان سے وہی روائیتی سوال پوچھا جو ہم سب کسی بھی فوتگی کا سن کر پوچھتے ہیں۔
کیسے؟ کچھ ہی سیکنڈز میں ان کا جواب آ گیا۔ ”تحریم، میری امی کی وفات نہیں ہوئی۔ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بھائی کے گھر منتقل ہو گئی ہیں۔“ اوہ۔ میں جو سمجھی تھی، معاملہ وہ نہیں تھا۔ لیکن جو معاملہ اب سمجھ آ رہا تھا وہ خاصا گھمبیر تھا۔ میں نے فوراً اپنی دوست کو ان کی اجازت سے فون کیا۔ وہ زار و قطار رو رہی تھیں۔
ان کا دل اپنی امی کے اس قدم پر بری طرح ٹوٹا ہوا تھا۔ یہ وہ دکھ تھا جس کا وہ کسی سے ذکر بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ لوگ انہیں ہی برا سمجھتے۔ ماں باپ کے مقابلے میں بچوں سے ہمدردی کون دکھاتا ہے۔ ہمارے نزدیک ماں باپ ہمیشہ صحیح ہوتے ہیں جبکہ بچے ہمیشہ غلط۔ میں ان کا کچھ حال تو جانتی تھی لیکن صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہوگی، اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔
انہیں دو سال قبل ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی۔ وہ تب سے اپنے بیٹے کے ساتھ اپنی والدہ کے گھر رہ رہی تھیں۔ ان کے والد ان کی شادی سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ بھائی سب شادی شدہ تھے اور اپنے اپنے گھروں میں رہتے تھے۔ ان کی والدہ کافی عرصے سے ان پر دوسری شادی کے لیے دبائو ڈال رہی تھیں۔ ان کے مطابق ان کی ذمہ داری انہیں شادی شدہ رکھنے کی تھی۔ ان کی پہلی شادی ختم ہونے پر ان کی جلد از جلد دوسری شادی کروانا ان کی ذمہ داری تھی۔
وہ اپنی امی کے بے حد اصرار پر شادی کے لیے راضی ہوئیں تھیں لیکن ایک شرط پر۔ وہ دوسری شادی ایک ایسے مرد سے کرنا چاہتی تھیں جو ان کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹے کو بھی کھلے دل سے قبول کر سکے اور اس کی ذمہ داری اٹھا سکے۔
پاکستان میں ایسے مرد ڈھونڈنا بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ ان کے لیے انہی روائیتی مردوں کے رشتے آ رہے تھے جو اپنے بچے تو دوسروں سے پلوانا چاہتے ہیں لیکن دوسرے کا بچہ خود نہیں پالنا چاہتے۔ انہوں نے ایسے کچھ رشتوں کے بعد اپنی امی کو مزید رشتے دیکھنے سے منع کر دیا تھا۔ اس پر ان کی امی ان سے ناراض ہو گئ تھیں۔ وہ سمجھ رہی تھیں کہ وہ ان کی ناراضگی کے دبائو میں کسی نہ کسی رشتے کے لیے ہاں کہہ دیں گی۔
جب ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو انہوں نے ان سے ملنا جلنا بھی بند کر دیا۔ انہیں گھر کا ایک حصہ دے دیا اور خود گھر کے دوسرے حصے میں منتقل ہو گئیں۔ یہ پھر بھی روزانہ اپنی امی کے پاس چکر لگا لیا کرتی تھیں۔
اس دن وہ اپنی امی کے حصے میں گئیں تو وہ خالی تھا۔ نہ ان کی امی وہاں تھیں اور نہ ان کا سامان۔ انہوں نے اپنے بھائی کو فون کیا تو انہیں پتہ چلا کہ ان کی امی ان کے گھر منتقل ہو گئی تھیں۔ یہ ایک طرح سے ان کی انہیں سبق سکھانے کی کوشش تھی۔ وہ سب مل کر انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ اس معاشرے میں ایک اکیلی عورت کی زندگی کس قدر مشکل ہو سکتی ہے۔
میری دوست ایک نجی اسکول میں انگریزی ٹیچر ہیں۔ ان کا بیٹا بھی اسی اسکول میں زیرِ تعلیم ہے۔ اسے اسکول سے جلد چھٹی ہو جاتی ہے۔ اسے اسکول کی بس چھٹی کے بعد گھر پہنچا دیتی تھی۔ وہ ان کے گھر آنے تک ان کی امی کے پاس رہتا تھا۔ اس وقت ان کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ اب وہ اسکول کے بعد کہاں رکا کرے گا۔
ان کے پاس فی الحال اس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں ڈے کئیر سینٹر عام نہیں ہیں۔ ان کے اسکول میں بھی اساتذہ کے لیے ڈے کئیر سینٹر کی سہولت موجود نہیں ہے۔ وہ اپنے بچے کو اپنے ساتھ اپنی کلاس میں بھی نہیں بٹھا سکتیں۔ ان کا اسکول انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔
آج کل ان کا اسکول چھٹیوں کے سلسلے میں بند ہے۔ اسکول کھلنے کے بعد وہ اپنے اس مسئلے کا حل ڈھونڈ لیں گی۔ اگلے کچھ سالوں میں ان کے بیٹے کے اسکول کے اوقات بھی بڑھ جائیں گے پھر وہ ان کے ساتھ ہی گھر واپس آیا کرے گا۔ لیکن ان کی والدہ کے اس قدم سے ان کا جو دل ٹوٹا ہے وہ شائد کبھی نہیں جڑ پائے گا۔
Discussion about this post