جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے 3 صفحات کے خط میں چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس کو ایک ساتھ نہیں سنا جاسکتا۔ سپریم کورٹ بار کی ہفتے کی درخواست کی سماعت میں صدارتی ریفرنس سماعت کے لیے مقرر رکنے کا حکم دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے مطابق وہ حیران ہیں کہ جو ریفرنس دائر ہی نہیں ہوا تھا اسے مقرر کرنے کا حکم کس طرح دیا جاسکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بار کی درخواست شق 184/3 کے تحت دائر ہوئی، اس پر عدالت حکم دے سکتی ہے۔ درخواست اور ریفرنس دونوں سپریم کورٹ کا الگ الگ اختیارسماعت ہے۔ ایک ہی بینچ دو مختلف اختیارسماعت میں بیک وقت سماعت نہیں کرسکتا۔ آئینی درخواست اور صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے بینچ بنایا گیا ہے، بار کی درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں چوتھے، 8ویں اور 13 ویں نمبر کے فاضل ججز کو شامل کیا گیا ہے۔ حالانکہ جہاں اہم قانونی اور آئینی سوالات ہوں وہاں سینئر ججوں کو بینچ میں شامل ہونا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق ایسا کرکے آپ نے اپنے سابق چیف جسٹس کی روایت سے پہلو تہی کیا، اہم آئینی معاملات کی سماعت میں سابق چیف جسٹس نے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینے کا صوابدیدی اختیار طے کیا ہے، سابق چیف جسٹس نے طے کیا کہ سینئر ججز پر مشتمل بینچ سماعت کرے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے، جس پر قوم کی نگاہیں سپریم کورٹ کی طرف ہیں۔ جج کا حلف کہتا ہے کہ وہ اپنے فرائضِ منصبی میں ذاتی مفاد کو ملحوظ نہیں رکھے گا، کہاوت ہے کہ انصاف ناصرف ہو بلکہ ہوتا نظر بھی آئے، اس کہاوت کا ذکر ججز کے ضابطہ اخلاق میں 5ویں نمبر میں بھی درج ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز کے مطابق بینچ کی تشکیل کا اختیار شفاف مبنی برانصاف اور قانون کے مطابق استعمال کرنا ہے، جناب چیف جسٹس صاحب! کئی بار آپ کو تحریری طور پر آگاہ کر چکا ہوں،ایک بیورو کریٹ کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے درآمد کر کے رجسٹرار تعینات کیا گیا۔ عام تاثر ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا مقدمہ کس بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہو، میری رائے میں رجسٹرار کی تقرری عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کے آئینی اصول کی خلاف ورزی ہے۔
Discussion about this post