یہ 2015کا عالمی کپ تھا، جب پاکستان کے خلاف 76رنز سے جیتنے کے بعدپریس کانفرنس میں بھارتی صحافی نے پاکستانی ٹیم کا تمسخر اڑاتے ہوئے دھونی سے سوال کیا کہ آخر بھارت تھکتا نہیں کہ پاکستان کو عالمی کپ میں ہراتے ہراتے۔ سمجھدار کپتان دھونی نے انتہائی پرسکون لہجے میں جواب دیا کہ ’ ضروری نہیں کہ آج ہم جیت رہے ہیں، تو مستقبل میں بھی بس جیتتے ہی رہیں۔ہوسکتا ہے کہ پاکستان کل اِس روایت کو قائم کرے۔ ریکارڈز تو بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے۔‘ آج وہی دھونی، بھارتی ٹیم کے خصوصی طور پر مینٹور بنے ہوئے تھے اور جب دبئی کے ٹی ٹوئنٹی کے عالمی کپ کے اہم میچ میں اُن کی ٹیم کو 10وکٹوں سے شکست ہوئی تو یقینی طور پر اُن کے ذہن میں اپنی کہی ہوئی بات گونج رہی ہوگی اور اُنہیں لگ رہا ہوگا کہ اب وقت بدلنے والا ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ایک روزہ میچوں کا عالمی کپ ہو یا پھر ٹی ٹوئنٹی کا، پاکستان 1992سے اِن مقابلوں میں بھارتی ٹیم کو زیر نہیں کرپایا تھا، کئی مواقع آئے جب پاکستان کا پلڑا بھاری تھا لیکن قسمت کی دیوی بھارت پر مہربان رہی ۔ اس اعتبار سے یہ لگ بھگ 3دہائی بعد پاکستان کی ایسی جیت ہے، جس نے اگلے پچھلے سارے حساب برابر کردیے۔ اتوار کے اس میچ سے قبل بھارتی ذرائع ابلاغ، سابق کرکٹرز اور تجزیہ کار تو پاکستانی ٹیم کو کسی خاطر میں نہیں لارہے تھے۔ گھمنڈ یہ تھا کہ ٹیم کے پاس بہترین بلے باز ہیں اور ایسا بالنگ اٹیک ہے جو پاکستان کی چھٹی کراسکتا ہے، مگر وہ اس اعداد وشمار کو بھول بیٹھے کہ جب سے پاکستان میں نئی دہلی کی سازشوں سے کرکٹ کے دروازے بند ہوئے ہیں۔ پاکستان کے لیے متحدہ عرب امارات ہوم گراؤنڈ بن چکا ہے، جہاں کی ہر کنڈیشن سے پاکستان بخوبی واقع ہے۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان او ر بھارت کے میچ میں وہی سرخرو ہوتا ہے، جو اپنے اعصاب پر قابو رکھے۔ جو دباؤ نہ لے۔ جب شاہین شاہ آفریدی نے اوپر تلے 2بھارتی بلے باز وں کو ابتدا میں چلتا کیا تو یہی وہ لمحہ تھا، جس نے سارا دباؤ بھارت پر منتقل کردیا۔ جس کے باعث وہ اپنے اسٹروکس کو بھول بیٹھے۔ کوہلی کے 57اور ایکسٹراز کے 12رنز نکال دیں تو 6مستند بھارتی بلے بازوں نے صرف82رنز ہی جوڑے۔بھارتی کھلاڑیوں نے ایک کے بعد ایک غلطیاں ایسی کیں کہ پاکستانی بالنگ لائن کے جال میں پھنستے چلے گئے۔
اس سے انکار نہیں پاکستان کے لیے ’ہار‘ کی صورت میں کو ئی بھی دباؤ نہیں تھا لیکن بھارت پر بہت تھا، بالخصوص ایسے میں جب بھارتی ذرائع ابلاغ اور متعصب کھیلوں کے چینلز ای ایس پی این اور اسٹار اسپورٹس ’موقع موقع‘ جیسے کمرشل بنا کر کھیلوں کی اسپرٹ کو مجروح کرتے ہوں۔ یقینی طور پر اس ہار کے بعد کوہلی کی کپتانی پر کئی سوال اٹھیں گے۔ اِن میں سب سے اہم سوال اشیون کو نہ کھلانے کا ہوگا۔ اِن کے بجائے ورن چکرورتی کی شمولیت پر کوہلی ہدف تنقید ہوں گے،کیونکہ یہ بھارت ہی ہے جو پاک بھارت میچز کو جنگ جیسی کیفیت بنا کر پیش کرتا ہے۔ کوہلی پر باقی میچوں پر اب غیر معمولی دباؤ ہوگااور وہ ہر ’قدم‘ اٹھاتے ہوئے بھارتی میڈیا کے سوالوں کے کٹہرے میں ہوں گے۔ ان سب سوالوں کے برعکس پاکستان کی جیت، اُسے ایسے ٹورنامنٹ میں اب اور ممتاز بنادے گی، جس میں اسے کسی درجہ بندی میں شامل نہیں رکھا جارہا تھا۔
یقینی طور پر بابر اعظم اور رضوان کی شاندار اور فاتحانہ بیٹنگ، آنے والے میچز میں پاکستان کے اعتماد کو بلندیوں کی جانب لے جائے گی۔بہرحال جیت پاکستان کی اور ہار بھارت کی ہوئی ہے لیکن اس سے زیادہ یہ کھیل کی جیت ہوئی ہے،خاص کر ایسے میں جب کوہلی کا بابر اعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکرانا ہو یا پھر رضوان سے خوشی سے بغلگیر ہونا۔
کاش یہ مناظر ایسے ہی رہے۔ نفرتوں کا جو زہر بھارتی ذرائع ابلاغ اور سیاست دان پھیلا رہے ہیں، اُن سے بھارتی کھلاڑی محفوظ ہی رہیں۔کاش خوش دلی کے ساتھ ہار کو تسلیم کرکے ’جنٹلمین گیم‘ کو واقعی ’جنٹلمین‘ ثابت کیے جانے کا یہ رواج ایسے ہی برقرار رہے۔
Discussion about this post