لاہور ہائی کورٹ میں تحریک انصاف، قاف لیگ اور اسپیکر پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جس پرلاہور ہائی کورٹ نے ان درخواستوں کو منظور کرلیا۔ جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ لارجر بینچ میں جسٹس شہرام سرور چوہدری، جسٹس ساجد محمود سیٹھی، جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس شاہد جمیل خان بھی شامل ہیں۔ یہ فیصلہ 4 ایک کی اکثریت سے سنایا گیا ۔ ایک جج جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے 5 درخواست دائر کی تھیں۔
اس نئے فیصلے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب کالعدم ہوگیا ہے اورقاف لیگ اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ اب ایک بار پھر نئے سرے سے پنجاب کے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا ۔ جبکہ عدالتی فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ نئے الیکشن کا حکم نہیں دیا جاسکتا ۔دوبارہ الیکشن کا حکم سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہوگا۔ اگر کسی کو مطلوبہ اکثریت نہیں ملتی تو شق 130 چار کے تحت سکینڈ پول ہوگا۔ دو بارہ رائے شماری میں جس کی اکثریت ہوگی وہ جیت جائے گا۔ عدالت پریزائیڈنگ افسر کا کردار ادا نہیں کرسکتی۔اسی طرح عدالت پریزائیڈنگ افسرکے نوٹی فکشن کو کالعدم کرنے کا بھی نہیں کہہ سکتی ۔یاد رہے کہ حمزہ شہباز کو 371کے ایوان میں سے 197 ووٹ ملے تھے، اسی طرح پی ٹی آئی کے 25 منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد ایوان میں ارکان کی تعداد 346 ہوگئی۔ نون لیگ کو اس وقت 166 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے 7، 3 آزاد اور ایک راہ حق پارٹی کا ووٹ بھی ن لیگ کے پاس ہے۔ اس طرح حکومتی اتحاد کے ووٹوں کی تعداد 177 بنتی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے 25 ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد اس کی تعداد 158 ہوچکی ہے۔ ق لیگ کے 10 ارکان ملا کر اپوزیشن کے 168 ارکان بنتے ہیں، اس لیے پی ٹی آئی کو 5 مخصوص نشستیں ملتی بھی ہیں تو اپوزیشن اتحادکی تعداد173 بنتی ہے۔ اس اعتبار سے موجودہ حکومتی اتحاد کو ابھی بھی 4 ارکان کی واضح برتری حاصل ہے۔
Discussion about this post