تصور کریں کہ کسی بھی بینک کا لاکر جو آپ کی ملکیت ہوتا ہے، اس میں سے آپکے قیمتی دستاویزات ، نقدی یا پھر زیورات غائب ہوجائیں تو کیا کیفیت ہوگی؟ یقینی طور پر محفوظ ترین جگہ سے یہ سب چیزیں اڑ جانے کے بعد آپ کا ہلکان اور پریشان ہونا تو بنتا ہی ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوا ہے براڈ کاسٹ جرنلسٹ اور پروگرام ہوسٹ ماریہ میمن کے ساتھ ۔
ماریہ میمن کے ساتھ آخر ہوا کیا؟
ماریہ میمن نے سوشل میڈیا پر بینک لاکر چوری کی تکلیف دہ کہانی شیئر کی ہے ۔ ان کے مطابق گزشتہ برس اُن کی والدہ کا انتقال ہوا۔ بسترمرگ پر انہوں نے ماریہ میمن کی بہن کو بینک لاکر میں رکھے سونے کے بارے میں بتایا ۔ والدہ کی وفات کے کچھ عرصے بعد والد نے ماڈل ٹاؤن لاہور کی متعلقہ بینک برانچ سے رابطہ کیا تو اُن سے لاکرکا اختیار رکھنے کے لیے سرٹیفیکٹ طلب کیا گیا۔ کچھ عرصے تک یہ معاملہ التوا کا شکار رہا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال بیت گیا اور دو ہفتے پہلے ماریہ میمن کے اہل خانہ کو بینک نے یہ بتایا کہ اُن کے والد اس لاکر تک رسائی کرسکتے ہیں۔ والد کو خبر ملی تو انہوں نے بینک جا کر لاکر کھولا تو وہاں صرف اور صرف زیورات کے خالی ڈبے رکھے تھے۔
More Locker Theft Stories… What is @StateBank_Pak doing to ensure that people aren’t robbed off their valuables put in the lockers? (3/n) #SBPFail pic.twitter.com/IgrlIQbgwQ
— Maria Memon (@Maria_Memon) September 13, 2021
ماریہ میمن کے احتجاج پر بینک انتظامیہ نے تحقیقات کی یقینی دہانی کرائی۔ بینک نے ابتدا میں عملے کی طرف داری کی لیکن اب وہ تسلیم کررہے ہیں کہ ماریہ میمن کے اہل خانہ کو سال بھر پہلے ہی لاکر تک رسائی دے دینی چاہیے تھی۔ ماریہ میمن کا ارادہ ہے کہ اس ساری کارروائی کے بعد بینک کے خلاف چوری کا مقدمہ درج کیا جائےگا۔ ماریہ میمن کے مطابق والدہ کے قیمتی اور نادر زیوارت اب ملنا تو مشکل ہیں لیکن انہوں نے دوسرے صارفین کو مشورہ اور خبردار کیا کہ بینک لاکرز ہولڈرز وقفے وقفے سے اپنی چیزوں کا جائزہ لیتے رہیں۔ انہوں نے درحقیقت سبھی کو خبردار کیا گیا ہے کہ اب بینک کے لاکرز تک محفوظ نہیں ۔
Bank Locker Theft Update:
More and more people are telling their stories about how they got robbed off their valuables, thought to be safe in bank lockers. ( 1/n) pic.twitter.com/rwjWEhUIps— Maria Memon (@Maria_Memon) September 12, 2021
بینک لاکرز چوری کے کئی واقعات سوشل میڈیا پر شیئر
ماریہ میمن کی اس روداد کے بعد سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے اس بات کا شکوہ کیا ہے کہ اُن کے ساتھ بھی کچھ ایسے ہی واقعات ہوچکے ہیں۔ ایک صارف ندیم سجاد بھی ماریہ میمن جیسی پریشانی کا سامنا کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2010 میں والد کا انتقال ہوا،اگلے برس جب لاکر کھولا تو زیوارت ، پرائزبانڈ اور قیمتی دستاویزات سب غائب تھے۔ روشنی جعفری کا کہنا ہے کہ ان کے والدین کے بینک لاکر سے بھی بہت ساری چیزیں غائب ملی تھیں۔ ایک صارف یاسین خان کے مطابق ان کا بینک اکاؤنٹ کلفٹن کراچی میں ہے، جہاں آئے روز ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اُن کے 3 دوست دس دنوں میں لٹ چکے ہیں اوربینک کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی۔ کچھ ایسی ہی لاکرز سے چوری اور گمشدگی کے کئی واقعات ماریہ میمن کے ساتھ صارفین نے شیئر کیے ہیں اور ان سب کا ماننا ہے کہ اس ساری کارستانی میں ممکن ہی نہیں کہ بینک کا عملہ نہ ملوث ہو۔ بات کی جائے کراچی کی تو رواں سال ایسے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں صارفین نے لاکرز سے چوری کی وارداتیں میڈیا میں نمایاں کیں ہیں۔ جولائی میں کلفٹن کراچی کی ایک برانچ میں بینک عملہ بھی ایسی ہی ایک واردات میں ملوث پایا گیا ۔
قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
اگر کسی صارف کے بینک لاکرمیں چوری کی واردات ہوجائے تو وہ بینکنگ کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے ۔ جو سامان چوری ہوا ہے ، اس کی سب سے پہلے ایف آئی آر درج ہوگی ۔ جس کے بعد چوری شدہ سامان کی مالیت کا صارف بینک پر کلیم کرسکتا ہے ۔ اس سارے پہلو میں سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ مدعی کو یہ ثابت کرنا ہوگاکہ اس کے لاکر میں سے چوری ہوئی ہے۔
Discussion about this post