اسٹائل آئیکون یا جدید فیشن کا ذکر آتے ہی ذہن میں کسی ماڈل یا اداکارہ کا تصور جگمگانے لگتا ہے اور لباس و انداز بھی ایسا کہ کوئی تبصرہ کیے بغیر رہ ہی نہ پائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی فیشن نے اپنی جگہ بنائی ، وہ دور ختم ہوا جب عوامی رہنمائی کے لیے خواتین کو سادہ لباس، ساڑھی یا شلوار قمیض ہی پہننے پر زور دیا جاتا تھا اب بیشتر رہنماوں کی نظر میں انٹرنیشنل برانڈ کا استعمال ہی جدید فیشن ہے ۔اب چاہے مریم نواز ہوں یا حنا پرویز بٹ، حنا ربانی کھر یا شرمیلا فاروقی۔ یہ خواتین سیاست دان جہاں شعلہ بیان مقرر ہیں وہیں ان کے ملبوسات، ان کے زیر استعمال اشیا موضوع بحث رہتی ہیں۔ کبھی ان کے قیمتی کپڑے تو کبھی ان کے برانڈڈ شوز عوام کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔
حسن پر بھی تنقید، مگر کیوں؟
خواتین سیاستدانوں کے فیشن اور گلیمر میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ صرف برانڈز متعارف ہونے لگے ہیں۔ اب اگر مریم نواز کے ہاتھوں میں بیگ ہو تو وہ معمولی نہیں ہوگا۔ وہیں اُن کی سینڈل، لباس، انگوٹھی، گھڑی سب برانڈڈ ہوگی۔
عموماً سیاسی جلوسوں یا کانفرنسز میں مریم نوازکے لباس اور ان کے بیش قیمت جوتے مرکز نگاہ رہتے ہیں موقع کی مناسبت سے مشہور انٹرنیشنل برانڈ ”منولو بلہینک “ہو گوچی یا ’ڈیور‘کا انتخاب، تصویر سوشل میڈیا پر آتےہی مخالفین قیمت گوگل کرنا شروع کرتےہیں۔
View this post on Instagram
کچھ ایسا ہی معاملہ حنا پرویز بٹ کا بھی ہے۔ جو باقاعدہ فیشن ڈیزائننگ کا کورس کیے ہوئے ہیں اور ایک ماہر ڈیزائنر کے طور پر اپنا کامیاب برانڈ چلا رہی ہیں، اپنے عمدہ لباس اور پرکشش انداز کے باعث ملک کے نامور ماڈلز اور ڈیزائنر کو گلیمر کی دنیا میں مات دیتی ہوئی دکھائی نظر آتی ہیں۔ حنا پرویز بٹ کا شمار پاکستان کی خوبصورت سیاسی خواتین میں ہوتا ہے۔
اسطرح شرمیلا فاروقی کے سادہ اور عمدہ لباس، شیری رحمان کے قیمتی زیورات یا پھر زرتاج گل کے خوبصورت اندازکی تو فیشن کے تقاضوں میں یہ سیاسی خواتین کسی طرح ماڈلز سے کم نہیں ہیں۔ اس اعتبار سے خاتون اول بشری بی بی انتہائی سادگی کے ساتھ باحجاب تو رہتی ہیں لیکن ان کے بارے میں بھی یہ تاثر یہی ہے کہ ان کے عبایا اور حجاب کی تیاری میں خطیر رقم کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی حسن کا تعلق آپکے انتخاب سے بھی ہے اوراس کی تعریف یا تنقید، پسندیدگی اور ناپسندیگی کی بنا پر ہوتی ہے۔
ماضی کی سیاسی خواتین
فیشن کے بدلتے ادوار ماضی میں بھی پاکستانی سیاسی خواتین کا حصہ بنے رہے ہے، پاکستان کی پہلی خاتون اول بیگم رعنا لیاقت نفیس ساٹن اور سلک کی قمیض شلوار زیب تن کرکے اور پر اعتماد شخصیت کی بناء پر تحریک پاکستان سے لیکر بطور خاتون اول مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں، مادر ملت فاطمہ جناح کی تنگ کرتی اورغرارے نے انکو ایک الگ ہی پہچان دی تھیں جنھوں نے عالمی سطح پر بھی اپنی اسی شناخت کو برقرار رکھا، اسی طرح جب بے نظیر بھٹو نے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو مشرقی لباس نے ایک نیا روپ دھارا، سر پردوپٹہ اور لمبی فراکس نے ان کی شخصیت کو متاثر کن بنادیا تھا جس کا اثر آج کی کئی سیاسی خواتین پر طاری ہے، ان کی شخصیت کے رنگ بیشتر خواتین نے اپنائے بھی ہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بے نظیر بھٹو کا سراپا اُس دور کی خواتین کے لیے بھی آئیڈل بنا۔
انکے ملبوسات پاکستان کے علاوہ غیرملکی ڈیزائنر نے ڈیزائن کیے، انکی بیٹی بختاور بھٹو نے اپنی ڈھولکی میں والدہ کے نکاح کا جوڑا پہنا تھا جو آج سے ٹھیک 33 برس قبل پہلے 1987 میں کراچی کے ایک معروف بوتیک ’ریشم رواج‘ نے تیار کیا تھا۔ جس پر سبز رنگ پر سُرخ زردوزی کا کام کیا گیا تھا۔ یہ ایک روایتی غرارہ تھا جو ریشم سے بنایا گیا تھا۔
کیا لباس پر تنقید یا تعریف مناسب ہے؟
لباس انسان کی شخصیت کا وہ نمایاں پہلو ہے جسے کسی سے بھی نہیں چھپایا جاسکتا۔ ہمیں یہ ماننا پڑتاہے کہ لوگ ہمیں ہمارے لباس سے پہچانتے ہیں اور اکثر ہمارے ساتھ ہمارے لباس کی بنیاد پر برتاوکرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لباس کسی کا کردار، ذہانت اور عقل و فہم طے نہیں کرسکتا ۔ اکثر خواتین سیاستدانوں پر ان کے لباس کی وجہ سے تنقید ہوتی یا انکی تعریف کی جاتی ہے جبکہ مرد حضرات کے کپڑوں جوتوں اور استعمال کی دیگر اشیا کو عموما موضوع بحث نہیں بنا یا جا تا ۔
Discussion about this post