مالاکنڈ ڈویژن کے جنگلات میں آتشزدگی سے ہر ایک کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ 8 مختلف مقامات پر آگ لگنے سے جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جبکہ شانگلہ میں آگ لگنے سے ایک ہی خاندان کے 4 افراد جاں بحق ہو گئے۔ ریسکیو شانگلہ کے ترجمان شریف خان کے مطابق شانگلہ کے علاقے چکیسر علی جان سر کے پہاڑوں کے جنگلات میں آگ لگنے سے پہاڑوں پر قائم گھر بھی لپیٹ میں آ گئے جس کے نتیجے میں ایک ہی گھر کے 4 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ڈی ایس پی جہانزیب خان کے مطابق آتشزدگی سے ماں سمیت 3 بچے جل گئے تھے، جن کو فوری طور پر مقامی ہسپتال منتقل کیا لیکن وہ زخمیوں کے تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے ۔ پولیس، ریسکیو حکام اور پاک فوج امدادی کارروائیوں میں مصروف ہے لیکن قریبی علاقوں میں پانی نہ ہونے کے باعث آگ بجھانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آگ مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، جس کے بعد قریبی مکانات کو خالی کرادیا گیا ہے۔ مقامی لوگ اور ریسکیو اہلکاروں نے پیشہ ورانہ طریقے سے آگ بجھانے کیلئے فوری طور پر کارروائی شروع کر دی ہے، مقامی ذرائع کے مطابق جنگل آتشزدگی میں کچھ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن کو فوری طور پر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال چکیسر منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ مختلف مقامات پر تاحال ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
مالاکنڈ ڈویژن کے 3 اضلاع سوات، شانگلہ اور بونیر میں آگ لگنے سے مزید جانی اور مالی نقصان خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سوات کے مختلف علاقے رحیم آباد مینگورہ، پٹھانے، کوزہ بانڈی سیگرام، بریکوٹ ابوہا اور چارباغ میں آگ بھڑک اٹھی ہے، ضلعی انتظامیہ، مقامی لوگ اور پاک فوج کے اہلکار آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔ ضلع بونیر میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مختلف مقامات پر پانچ سو سے زائد ایکڑ جنگلات میں آگ لگی ہے۔ جس کی وجہ سے ان علاقوں میں بلین ٹری منصوبے کے تحت لگائے گئے درختوں سمیت پہلے سے موجود جنگل جل کر راکھ ہو گیا۔ بونیر کے مختلف علاقوں میں گزشتہ 2 برسوں کے درمیان مسلسل آگ لگائی جاتی ہے، جہاں پر حکومت نے بلین ٹری منصوبے کے تحت پودے لگائے گئے۔ پودوں کے ساتھ ساتھ پرانی قیمتی درختوں سے علاقہ عمائدین محروم ہوگئے ہیں۔ آگ لگنے والے مختلف علاقوں میں گوکند درہ، ایلم، گاگرہ، چغرزئی غازی بانڈہ، کلابٹ، چڑ اور دیگر مقامات شامل ہیں۔ بونیر میں ضلعی انتظامیہ کئی دنوں سے مختلف مقامات پر آگ پر قابو پانے کیلئے کوشیش تیز کرنے کے بجائے گزشتہ دنوں سابق وزیراعظم عمران خان کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیاریوں میں مصروف تھی، جس سے بونیر کے جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر بونیر ارشد خان نے ” تار” کو بتایا ہے کہ ضلع بونیر کے مختلف علاقوں میں لگی آگ میں کچھ سرکاری اور کچھ نجی جنگل شامل ہیں۔ ابھی تک بیشتر علاقوں میں لگی آگ پر قابو پا لیا گیا ہے، حالیہ واقعات میں محکمہ نے باقاعدہ ایف آئی آر میں نامزد افراد کو گرفتار کیا ہے اور ساتھ ہی محکمہ جنگلات نے ایف آئی آر کے ساتھ ساتھ پان ڈیمیج رپورٹ بھی درج کی ہے۔
سینئر رہنما خیبرپختونخوا عوامی نیشنل پارٹی میاں افتخار حسین نے ٹوئٹر پر پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں پہاڑی سلسلوں میں آگ لگنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ عمل قابل افسوس ہے ۔ صوبائی حکومت کو فوری طور پر اقدامات اٹھانے کے ضرورت ہے کیونکہ قیمتی پہاڑ جل رہے ہیں جبکہ حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے ۔
ماہر ماحولیات اکبر زیب نے ” تار” سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خشک موسم کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیل رہی ہے، آگ بجھانے میں مسائل کا سامنا ہے جبکہ سہولتوں کی کمی بھی آگ بجھانے کے عمل کو متاثر کر رہی ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اپریل سے جولائی کے دوران گھنے جنگلات میں آگ کا بھڑک اٹھنا اب معمول بن چکا ہے۔ جنگلات میں آگ عموما ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث لگتی ہے۔ مگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے جنگل میں آگ لگنے کی شرح دیگر عوامل سے زیادہ ہے۔اکبر زیب کے مطابق پشاور یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے نتائج کے مطابق 1993 سے 2000 تک صرف خیبرپختو نخوا کے ضلع سوات کے جنگلات میں 20 مرتبہ آگ لگی اور ہر بار آگ مقامی افراد نے ذاتی دشمنی پر لگائی۔ آگ لگوانے کے ان تمام واقعات میں ملزمان کی نشاندہی تو ہوئی مگر صرف 4 واقعات میں مجرمان کو سزا بھگتنا پڑی۔ باقی افراد کسی نہ کسی طرح ضمانت کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ وائلڈ فائرز پر کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم ‘تھنک ہیزارڈ‘ ریسرج کے مطابق پاکستان اس خطے میں واقع ہے، جہاں گرمیوں میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک بلند درجہ حرارت جنگل میں آگ بھڑ کانے میں 50 فیصد معاونت کرتا ہے لیکن اس حوالے سے مقامی سطح پر تحقیق کا فقدان ہے۔
Discussion about this post