میں بہت تھک چکا ہوں، میرا یہاں کوئی نہیں۔ یہ الفاظ نمل یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے جواں سال طالب علم ساگر گوپانگ کے، جو تھک گیا تھا زندگی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے، جس نے مالی مسائل اور مہنگائی سے تنگ آکر پنکھے سے لٹک کر جان دے دی۔
بدین کا یہ طالب علم بہترین تخلیق کار اور ابھرتا ہوا فن کار تھا، جو ذہنی دباؤ اور مایوسی کا شکار ہوا۔ جس کا تذکرہ وہ اکثر اپنے وی لاگز میں بھی کرتا، ساگر کو دکھ صرف یہ تھا کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں ناکام رہا ہے، چاہے وہ وی لاگنگ ہو، فوٹوگرافری یا پھر فلم میکنگ، کسی بھی شعبے میں بلند مقام پانے کی جدوجہد اسے کامیابی کی معراج پر نہ لاسکی۔
سوشل میڈیا کی رنگ رنگیلی دنیا میں گم ہونے کے باوجود وہ خود کو بالکل تنہا محسوس کرتا، والدہ کی جدائی کا غم سہا تو جیسے وہ اور ٹوٹ کر بکھر گیا۔ مالی اور ذہنی مشکلات کے لیے ہر در کھٹکھٹایا لیکن ہر ایک نے اس کا سہارہ بننے سے انکار کیا۔
بدین کے اس جواں سال نوجوان نے پھر وہ فیصلہ کیا جس نے اب ہر ایک کی آنکھ نم کردی ہے، ساگر کے خود کشی کے آخری پیغام میں جہاں وہ خونی رشتوں سے اپنے اس عمل کی معافی کا طلب گار ہے وہیں اس کے لکھے ہوا ایک ایک لفظ اس کی ذہنی اضطرابی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔
ہنس مکھ ساگر گوپانگ اب اس دنیا میں نہیں رہا لیکن اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا ہے، آخر مایوسی کا شکار نوجوانوں کو آگے بڑھ کر کیوں سہارہ نہیں دیا جاتا۔ اس سلسلے میں ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسے افراد واقعی ہماری توجہ چاہتے ہیں، انہیں نظر انداز کرنے کے بجائے ان سے بات کرنی چاہیے، انہیں ایک اچھا مخلص دوست بن کر ان کے اندر یہ شعور اجاگر کرایا جائے کہ بار بار ٹھوکریں کھانے کے بعد وہ پھر سے گر کر اٹھ سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے ساگر گوپانگ کو ایسا کوئی ہمدرد یا مخلص نہیں ملا ۔ جبھی اُس نے زندگی کے بجائے موت کو ترجیح دی۔
Discussion about this post