روسی فوج یوکرینی دارالحکومت کیف میں داخل ہوگئی ہے جہاں کی گلیاں گولیوں اور بمباری کے خوفناک مناظر پیش کررہے ہیں۔
ہزاروں کی تعداد میں یوکرینی باشندے آہ و پکار کے ساتھ نقل مکانی کررہے ہیں، یوکرین کے ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشن پر عوام کا جم غفیر ہے جبکہ کئی افراد زیرزمین سرنگوں اور بنکرز میں رات اور دن گزارنے پر مجبور ہے۔
ایک وقت تھا جب یوکرین میں یورپی ممالک کا اسرو رسوخ پایا جاتا تھا ، جنہوں نے ہر مرحلے پر یوکرین کو یقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن پھر جب روس نے حملہ کیا تو سب دھیرے دھیرے پیچھے ہٹتے چلے گئے اور اب یوکرین تن تنہا اپنے سے زیادہ بڑی طاقت ور فوج کے خلاف لڑ رہا ہے ۔ جس کے صدر کے حوصلے بلند ہیں۔ بدقسمتی سے یہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی کی جانب سے روس پر پابندیاں تولگا دی گئی ہیں لیکن کوئی یوکرینی عوام کا درد نہیں جان رہا ۔ جو زندگی بچانے کی جدوجہد میں ہیں۔ درحقیقت جن کے بھروسے پر اس آگ میں کودا وہ اسے بے یارو مددگار چھوڑ کر صرف بیان بازی سے جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ روس کی جانب سے بڑے پیمانے پر حملے کے بعد، جس میں پہلے دن 130 سے زائد یوکرینی شہری مارے گئے تھے، ان کا ملک روس سے لڑنے کے لیے ’اکیلا‘ رہ گیا ہے۔
یوکرینی صدر نے آدھی رات کے بعد قوم سے ایک ویڈیو خطاب میں کہا ’ہمیں اپنی ریاست کے دفاع کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا’ہمارے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے کون تیار ہے؟ مجھے کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ کون یوکرین کو نیٹو کی رکنیت کی ضمانت دینے کے لیے تیار ہے؟ ہر کوئی خوفزدہ ہے۔ ان کا عزم یہی ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے ہتھیار نہیں ڈالیں گے ۔
جمعرات کو ہونے والے حملے کے آغاز سے لے کر اب تک 137 یوکرینی فوجی اہلکار اور عام شہری مارے جا چکے ہیں جبکہ مزید 316 زخمی ہوئے ہیں۔
Discussion about this post