میں آج بھی کراچی کے ریگل چوک پر کھڑا ہوں، 30 سال پہلے جب میں 18 سال کا تھا تو ایک رات تنہا اور سہما ہوا وہاں کھڑا تھا، صدر کے ریگل چوک پر دن رات رونق لگی رہتی ہے لیکن اس وقت سناٹا ہے، یہ80 کی دہائی کا آخری سال ہے، پچھلے کئی سال سے شہر پرتشدد ہنگاموں کی زد میں ہے، شہر کو اس کے اپنوں کی نظر لگ چکی ہے، جلاو گھیراؤ اور فائرنگ اور پھر کرفیو شہر کی شناخت بن چکے ہیں، آج بھی اچانک شروع ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد کئی علاقوں میں کرفیو لگا ہوا ہے جن میں وہ علاقہ بھی شامل ہے جہاں میں رہتا ہوں۔ رات کے 9 بج چکے ہیں میں ریگل چوک میں پریشان کھڑا سوچ رہا ہوں کہ کہاں جاؤں ، کرفیو کی وجہ سے گھر پہنچ پانے کا امکان نہیں ہے، رات سر پہ آ گئی ہے اور یہ سیاہ رات سڑک پر نہیں گزاری جا سکتی لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ کہاں جاؤں ؟ کوئی دوست کوئی رشتہ دار کوئی جاننے والا ، اس وقت کس کے گھر جا سکتا ہوں ۔
میں ریگل چوک پر کھڑا ہوں جہاں دکانیں بند ہیں، ہو کا عالم ہے، سناٹا چھایا ہوا ہے، اکا دکا لوگ پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر کھڑے نظر آ رہے ہیں، کوئی گاڑی آتی دیکھتے ہیں تو لپکتے ہیں۔ سب نے کہیں نہ کہیں جانا ہے سب کی کوئی نہ کوئی منزل ہے، میں ریگل چوک پر کھڑا سوچ رہا ہوں کہ جاؤں تو کدھر جاؤں ؟ اللہ ایسا تنہا کسی دشمن کو بھی نہ کرے کہ بھرے شہر میں کوئی ایک شخص کوئی ایک گھر ایسا نہ ہوں جو چاہے ایک رات کے لیے ہی جائے امان بن جائے۔ دن نکلے گا تو کرفیو کے باوجود گھر پہنچنے کی کوشش کی جا سکتی ہے، لیکن مسئلہ تو رات گزارنے کا ہے۔ ایسا نہیں کہ میرا کوئی عزیز یا رشتہ دار نہیں، سب ہیں بہت سے ہیں لیکن ماں باپ نے کبھی دور قریب کے کسی رشتہ دار سے بنا کر نہیں رکھی، نتیجہ یہ کہ نہ کسی عزیز رشتہ دار کو دیکھا اور نہ ہی کبھی کسی کے گھر گئے، چچا ، پھپو ، خالہ، ماموں سب کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کسی کا گھر یاد آجائے کہ ریگل چوک سے نکلوں اور اسے جائے پناہ بنا لوں۔ رات کی سیاہ چادر سڑکوں اور عمارتوں پر چھاتی جا رہی ہے کہیں کہیں کھمبوں پر لگے ایک دو زرد بلب اندھیرے کا تاثر مزید گہرا کرنے میں لگے ہوئے ہیں، مجھے ریگل چوک میں کھڑے ڈیڑھ گھنٹے کے قریب ہو چکا ہے اس دوران ٹاور سے آنے والی اکا دکا بس گزرتی ہے۔ میری طرح اِدھر اُدھر پریشان کھڑے لوگ اس بس میں چڑھ کر اپنی منزل اپنے گھر کو روانہ ہو چکے ہیں لیکن میں اس پریشانی میں ہوں کہ کسی بس میں بیٹھ بھی گیا تو جاؤں گا کہاں ؟ اسی ادھیڑ بن میں رات کے10 بج گئے ہیں۔ اتنے میں ایک بس ٹاور کی طرف سے آتی ہے۔ ریگل اسٹاپ پر بس رکتی نہیں ڈرائیور بس کی رفتار کم کر لیتا ہے اسٹاپ پر موجود 2 لوگ بھاگ کر بس پکڑ لیتے ہیں، بس میرے سامنے سے گزر جاتی ہے، اسٹاپ پر اب میں اکیلا کھڑا ہوں ، بس کے پائیدان پر کھڑا کنڈیکٹر میری طرف دیکھ کر آواز لگاتا ہے ، لڑکے یہ آخری بس ہے اس کے بعد کوئی سواری نہیں ملے گی۔ میں بس کی جانب دیکھتا ہوں ، بس کے پیچھے اس کا نمبر لکھا ہے، 5سی ، یہ بس تو دستگیر جاتی ہے جہاں میری پھوپھی کا گھر ہے، میں ان کے گھر کبھی بچپن میں گیا تھا لیکن راستہ کچھ کچھ یاد ہے، ایک موہوم سی امید پرمیں بس کی طرف دوڑتا ہوں۔ اب میں بس میں ہوں جو تقریباً خالی ہے، بس کے باہر بھی سناٹے کا راج ہے۔ میرے اندر بھی سناٹا ہے جو باہر کے سناٹے سے زیادہ شور مچا رہا ہے۔ بس خالی اندھیری سڑک پر خوف زدہ چوزے کی طرح دوڑ رہی ہے۔ وقت بے ڈھنگے پن مگر تیز رفتاری کے ساتھ گزرتا جا رہا ہے، 30 بتیس سال گزر چکے ہیں لیکن میں آج بھی اسی طرح زندگی کے ریگل چوک پر تنہا کھڑا ہوں۔
Discussion about this post