ہر جمعرات کی رات سعودی ناظرین بے چینی سے تھرلر ایکشن ’رشاش‘ کا انتظار کرتے تھے۔ جس میں ماردھاڑ ہوتی، تجسس اور ہالی ووڈ کے معیار کی ڈائریکشن۔ کہانی بھی کچھ ایسی تھی کہ نشستوں سے اٹھنے کو دل نہیں چاہتا۔ ایک سچے واقعے کے گرد گھومتی اس سیریز کی ریٹنگ بھی سب سے آگے رہی۔ اُن سعودی باشندوں کے لیے تو اس میں خاصی کشش تھی، جنہوں نے 70اور پھر 80کی دہائی میں سعودی ڈاکو، منشیات فروش اور قاتل رشاش العتیبی کے قصے سنے تھے۔ جس کی دہشت سے ہر کوئی کانپ اٹھتا تھا۔ جو جرائم کی اس دلدل میں ایسا پھنسا کہ اس کا انجام موت پر ہی ہوا۔ فلم میں مرکزی کردار یاغوب الفرحان نے ادا کیا۔ جو پرستاروں کی بڑی تعداد رکھتے تھے لیکن ’رشاش‘ کے بعد اور مشہور ہوگئے ہیں۔
پسندیدگی کے باوجود تنقید کیوں؟
آٹھ اقساط والی اس سیریز کو بھاری بجٹ سے بنایا گیا۔ جس کے لیے سعودی پروڈکشن ہاؤس ایم بی سی گروپ نے رقم پانی کی طرح بہائی۔ اس کے ہدایت کار برطانوی شہری کولن ٹیگ تھے۔ سیریز کے نشر ہونے سے پہلے ہی واضح کردیا گیا تھا کہ یہ ماردھاڑ اور ایکشن کے ساتھ خون خرابے کی بنا پر 18سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے ہے لیکن اس کے باوجود اسے کم عمر افراد نے بھی دیکھا اور ’رشاش‘ کے کردار میں جیسے کھو سے گئے۔ ایک حلقہ وہ بھی تھا جس کا خیال تھا کہ ایک گینگسٹر کی زندگی کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا کسی صورت مناسب نہیں۔ جس سے نوجوانوں پر برا تاثر ہوگا۔
دوسری جانب ’رشاش‘ کے اہل خانہ نے بھی سیریز دکھانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ا ن کے مطابق یہ اُن کے خاندان کی بدنامی ہے اور اس طرح پرانے زخم پھر ہرے ہوجائیں گے لیکن پروڈکشن ہاؤس نے یہ سارے اعتراضات مسترد کردیئے۔
اس سیریز کے حق میں کچھ ناظرین کا کہنا ہے کہ ’رشاش‘ ہیرو کے طور پر پیش نہیں ہوا کیونکہ فلم میں نیکی اور بدی کی جنگ لڑنے والے دونوں ایک ہی قبائل کے تھے۔ ایک ملک کی خدمت اور انسانی جانوں کا محافظ انسپکٹر فہد بنا تو دوسرے نے جرم کی راہ کا انتخاب کرکے ’رشاش‘ سے اپنی دہشت بٹھائی۔
رشاش کے انداز کی مقبولیت
ٹی وی سیریز کی تشہیر جنوری میں شروع ہوئی۔ جس کے پرمو کو ڈھائی ملین سے زیادہ صارفین نے یوٹیوب پر دیکھا۔ جب یکم جولائی سے ’رشاش‘ کی اقساط نشر ہوئیں تو سوشل میڈیا پر کئی نوجوانوں کو ’رشاش‘ کی شخصیت دھارتے دیکھا گیا۔ بعض اوقات یہ نوجوان ہر ایک کو ’رشاش‘ کی طرح دھمکیاں دیتے ہوئے ویڈیوز بھی اپ لوڈ کرتے رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کردار کے سحر میں سب گرفتار رہے ۔ جنہوں نے ’رشاش‘ جیسے گندے بالوں کو رکھنا فیشن بھی بنالیا۔
سعودی میڈیا کے مطابق الخوبر شہر میں ایک کیفے کے مالک نے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ’رشاش‘ کی مقبولیت کا سہارہ لیا۔ دیواروں پر سیریز کی بڑی بڑی تصاویر سجائیں۔ جبکہ مختلف پیالوں پر ’رشاش‘ اور دیگر اداکاروں کے مشہور مکالمات کو پرنٹ کروایا۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ مشروبات کو مجرموں کے نام تک دے دیئے گئے ۔ یہی نہیں اُس پولیس افسر فہد کی بھی خوب مقبولیت رہی۔ جو ’رشاش‘ اور اس کے گروہ کو پکڑنا اپنا مشن بنالیتا ہے۔
رشاش سے متاثر نوجوان والدین سے مشورہ لیں
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پہلی بات تو یہ کہ سیریز کم عمروں کے لیے نہیں تھی اور اگر کوئی ’رشاش‘ سے متاثر ہوا ہے۔ تو اپنی رہنمائی کے لیے وہ والدین سے گفتگو کرے۔ تاکہ وہ اس سچے کردار کے منفی رخ کو اجاگر کرکے انہیں صحیح اور غلط کا فرق سمجھائیں۔
رشاش، سعودی فلمی صنعت میں انقلاب لائے گا؟
سیریز میں بیشتر فنکار سعودی تھے اور ان کی اداکاری دیکھ کر بین الاقوامی سطح پر ان کے ٹیلنٹ کو سراہا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی پروڈکشن نے اپنی پوری تاریخ میں اس قدر غیر معمولی ٹی وی سیریز تخلیق نہیں کی ہوگی۔
یقینی طور پر یہ سیریز، سعودی عرب میں تیار ہونے والی دیگر تخلیقات کو حوصلہ دے گی، جو اسی پائے کی فلمیں بنانے کی جانب راغب ہوں گے۔ جس کے ذریعے مقامی سنیما کو پھلنے پھولنے اور مختلف موضوعات پر کام کرنے کا بھرپور موقع ملے گا۔
Discussion about this post