جمعہ کی شام سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی پریس کانفرنس کا آغاز وفاقی حکومت کی ناانصافیوں سے ہوا اور پھر اچانک ہی انہوں نے یہ بم پھاڑا کہ کراچی سمیت سندھ بھر کے تعلیمی ادارے اب مزید ایک ہفتے تک بند رہیں گے ۔ یعنی 23 اگست سے کھلنے والے اسکولز اب 30 اگست کو طالب علموں کو خوش آمدید کہیں گے، جو اب بعد میں غیر معینہ مدت تک کیلئے بند کردیئے گئے ہیں۔
مراد علی شاہ نے وجوہات بیان کیں کہ سندھ بالخصوص کراچی میں کرونا وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور اسی بنا پر یہ فیصلہ کیا ۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کردیا کہ اسکول ٹیچرز اور بچوں کے والدین کو بھی اپنا ویکسین سرٹیفکیٹ دکھانا ہوں گے۔ اس فیصلے میں مزید اضافہ کرتے ہوئے جامعات کے وزیر اسماعیل راہو نے یہ خبر سنا دی کہ سندھ کی تمام جامعات اور بورڈز بھی 30اگست کو نہیں بلکہ صوبائی حکومت کے نافذ کردہ فیصلے کے تحت تاحکم ثانی بند رہیں گی اور کوشش کی جارہی ہے کہ اس سے قبل طلبہ اور اساتذہ کی پہلی ویکسی نیشن مکمل کرالی جائے ۔
فیصلے پر تنقید
سندھ کی اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی حکومت کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے ۔ بالخصوص پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ کراچی میں کون سے ایس او پیز پر عمل ہورہا ہے جو تعلیمی ادارے بند کرکے بچوں کے مستقبل سے کھیلا جارہا ہے ۔ دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان نے نجی اسکول ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے تعلیمی ادارے کھولنے کا مطالبہ داغا۔ ان کا کہنا تھا کہ ناکام وزیر کو ہٹانے کے بعد سردار شاہ کو مسلط کیا گیا ہے ۔ ترانوے فیصد اساتذہ کی ویکسی نیشن ہوچکی ہے ۔ مراد علی شاہ محفلیں سجا سکتے ہیں ، جلسے کرسکتے ہیں لیکن سندھ کے اسکول نہیں کھول سکتے ۔
وفاقی وزیر شفقت محمود بھی ناراض
سندھ حکومت کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اس نے وفاقی حکومت کے ایک قوم ایک نصاب میں شرکت سے معذرت کرلی تھی ۔ جس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ بدقستمی سے سیاست سندھ میں یک نصاب کے نفاذ میں مداخلت کررہی ہے ، غلط بیانی کی جارہی ہے کہ یک نصاب سندھی زبان کے خلاف ہے ، وہ مضامین جو سندھ حکومت سندھی میں پڑھانا چاہتی ہے ان کا ایسا کرنا خوش آئندہ ہے ، ہم نے تمام اسکولوں کو ایک ہی درسی کتاب پڑھنے پر مجبور نہیں کیا ، یک نصاب پر مبنی کتابیں نجی پبلشرز تیار کرسکتے ہیں لیکن متعلقہ صوبائی حکومت سے این او سی لینا ہوگی ۔
سوشل میڈیا پر طوفان
سوشل میڈیا کا جائزہ لیں ” سیو ایجوکیشن آف سندھ ” اس وقت ٹاپ پر ہیں ۔۔۔ بیشتر ٹوئٹس سندھی زبان میں کیے ہوئے ہیں ، جن میں حکومت سندھ پر کڑی تنقید کے نشتر برسائے گئے ہیں۔ ایک صارف کے مطابق جلوس،جلسے،الیکشن کیمپیئن،شادی تقریبات، مارکیٹیں،ہوٹلیں،دکانیں،تمام پبلک ٹرانسپورٹ تمام عوامی اجتماع جاری ہیں۔
پرائیویٹ تعلیمی ادارے ٹیوشن کے نام پر چل رہے ہیں تو اب سرکاری تعلیمی ادارے بند کرنا تعلیمی نقصان ہے۔ ایس او پیز کے تحت تعلیمی ادارے کھولے جائیں۔ ایک صارف کے مطابق تینوں صوبوں میں تعلیمی ادارے کھلے ہیں اور بند ہیں تو صرف سندھ میں ۔ بچوں کی تصاویر ہیں جن میں پلے کارڈ لے کر وہ یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ کرونا کو ختم کریں تعلیم کو نہیں۔
ایک صارف کا کہنا ہے کہ تعلیم کی تباہی کی وجوہات وہ نہیں جو حکمران کرتے ہیں بلکہ ہم سندھ کے لوگ ہیں جنہوں نےانہیں ووٹ دیا ، جو ہمارے مستقبل کے معماروں کو اندھیرے میں گھسیٹنا چاہتے ہیں ۔ایک صارف کو تعلیم کے ساتھ ہونے والے مذاق پر غصہ ہے ان کا کہنا ہے کہ دوران مسلسل ڈرامے ہوتے رہے کبھی اسکول آج کھل رہیں ہیں کبھی کل کھلیں گے، امتحان نہیں ہوں گے ڈائریکٹ پروموشن ہوگا، طلبہ کو عجیب ذہنی ٹارچر میں مبتلا کیے رکھا ۔
موجودہ وزیر تعلیم سے امید ہے یہ رپیٹیشن نہیں ہوگی۔ایک اور صارف کا کہنا ہے کہ کرونا کے نشانے پر صرف اسکول ، کالج ، یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی ادارے ہیں۔ باقی شعبوں میں نہیں ہے کرونا ۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ کرونا وائرس کی روک تھام ضروری ہے لیکن تعلیم بھی ضروری ہے ، بچوں کو اسکول کی طویل بندش کی وجہ سے منفی رجحانات پیدا ہونے کا خطرہ ہے جو کہ خطرناک ہے۔
دوسری جانب اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے ایک صارف کا کہنا ہے کہ تعلیم بند کرنے سے نوجوان طلباء و طالبات کا مستقبل تباہ نہیں ہوا ، اس لیے نہیں کہ یہ بیماری فرد کو مار دیتی ہے بلکہ ایک قسم کی نسل کو بھی تباہ کر دیتی ہے۔
Discussion about this post