پیر کی رات سے ایک طوفان مچا ہے، نون لیگ لندن کی عدالت سے شہباز شریف کی منی لانڈرنگ میں کرپشن کے الزام کے بریت کے فیصلے کی گردان کررہی ہے تو دوسری جانب وفاقی وزرا کا موقف ہے کہ شہباز شریف تو اس مقدمے میں نامزد ہی نہیں تھے بلکہ لندن کی نیشنل کرائم ایجنسی نے سلیمان شہباز کے بینک کھاتوں کو 2مشکوک ٹرانزیکشن پر منجمد کیا تھا،جنہیں بحال کردیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے بھی منگل کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جو حکومت کہہ رہی ہے، وہی درست ہے۔ اس سلسلے میں شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ نون لیگ حقائق کو مسخ کرکے پیش کررہی ہے، فیصلے میں تو شہباز شریف کا نام تک نہیں۔اُن کے مطابق حکومت نے تو لندن میں شہباز شریف کے خلاف کوئی مقدمہ کیا ہی نہیں۔
جس پر نون لیگ نے جوابی پریس کانفرنس میں شہزاد اکبر کے موقف کو گمراہ کن ہی قرار دیا، لیگی قیادت کے مطابق حکومت کا احتساب کا بیانیہ دفن ہوگیا ہے۔ اسی عرصے میں نیب کا کہنا تھا کہ شہباز اور سلیمان کے برطانیہ میں بینک کھاتے، پاکستان میں منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کا حصہ نہیں رہے۔ نیب نے شہباز اور سلیمان سے کبھی برطانیہ میں موجود ان کھاتوں کے بارے میں سوالات نہیں کیے۔ نون لیگ کے قانونی مشیر عطا تارڑ کا اس سارے معاملے پر کہنا ہے کہ نیشنل کرائم ایجنسی نے بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے 20ماہ تک تحقیقات کیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ساری تحقیقات نیب اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے کہنے پر ہوئیں کیونکہ فیصلہ شہباز شریف کے حق میں آیا ہے، اسی لیے حکومت اب مکر رہی ہے۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ نون لیگ کا بیانیہ اصل میں کیا ہے، برطانوی عدالت نے سلیمان شہباز کے ایک مقدمے میں اپنا فیصلہ سنایا، پھر اس کا شہباز شریف سے کیا تعلق؟ خاص کر ایسی صورتحال میں جب شہباز شریف پاکستانی عدالتوں میں پیش ہو کر یہ کہتے ہیں کہ سلیمان شہباز کی جائیداد اور اثاثوں سے اُن کا کوئی تعلق نہیں۔اگر سلیمان شہباز بری ہوئے ہیں تو پہلی فلائٹ لے کر واپس آئیں اور پاکستان میں کرپشن کے مقدمات کا سامنا کریں۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ لندن کی عدالت کے فیصلے کا شریف خاندان کا پاکستان میں مقدمات سے کوئی تعلق نہیں اور یہ اس جانب بھی اشارہ نہیں کہ شریف خاندان بدعنوانی کے اُن مقدمات سے بری ہوگیا جو پاکستانی عدالتوں میں اُن پر قائم ہیں۔ اس حوالے سے بیرسٹر چوہدری اعتراز احسن کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے مذاق ہی چل رہا ہے۔ جو چیز نظر آتی ہے، وہ ہوتی نہیں اور جو نظر نہیں آتی وہ ہوتی ہے۔ اُن کے مطابق 28تاریخ کو شاہد خاقان سمیت نون لیگی قیادت پریس کانفرنس کرتی ہے۔ جو کاغذلہراتے ہیں وہ خود انہوں نے نہیں دیکھا کیونکہ اس میں 10ستمبر کی تاریخ لکھی ہے۔ اب سمجھ نہیں آرہی کہ 18دن بعد لیگی قیادت کیوں پریس کانفرنس کررہی ہے؟ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ نون لیگ اس حکم کو بھی قطری خط کی طرح عدالت میں پیش کرسکتی ہے۔
بیرسٹر چوہدری اعتراز احسن کا کہنا ہے کہ نون لیگ نے ان 18دنوں میں یہ سوچا ہے کہ اس لندن کے عدالتی حکم کو کس طرح ’کیش‘ کرانا ہے۔قانونی نقطہ نظر سے شہباز شریف کو اس فیصلے سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تو پھر وہ کیوں شور مچا رہے ہیں کہ وہ سرخرو ہوگئے۔ بریت ہمیشہ ٹرائل کے بعد ہوتی ہے، جب ٹرائل ہی نہیں ہوا تو شریف خاندان کیسے بریت کا دعویٰ کررہا ہے۔ بہرحال ان متضاد بیانات اور دعوؤں کے بعد سیاسی منظر عام میں اچانک ہی ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ حکومت اس معاملے پر حقائق سامنے لانے کا دعویٰ کررہی ہے تو وہیں نون لیگ اسی موقف پر قائم ہے کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کو کرپشن کے الزام سے ’کلین چیٹ‘ مل گئی ہے۔
Discussion about this post