پاکستان میں گذشتہ پانچ برسوں سے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر فیمینسٹس اور حقوقِ نسواں کے حامی افراد عورت مارچ منعقد کر رہے ہیں۔ اس مارچ نے پاکستان میں حقوقِ نسواں کی تحریک کو ایک نیا رُخ دیا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان میں خواتین کی تحریک کا زور حکومت سے مطالبات منوانے پر تھا۔ عورت مارچ حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے سے بھی خطاب کر رہا ہے۔ اس مارچ نے عوامی اور نجی دائرہ کار کے درمیان حائل وہ دیوار گرا دی ہے جو اس سے پہلے کی تحریک گرانے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔
غالباً اسی وجہ سے عورت مارچ کو عوام و خاص کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عوام کا ایک بڑا حصہ اس مارچ کو ملکی ثقافت کے خلاف مغرب کی سازش سمجھتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ یہ جاننے کے لیے ہمیں سماجی تحاریک اور میڈیا کے مابین تعلق کو سمجھنا پڑے گا۔
سماجی تحاریک اور میڈیا ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ سماجی تحاریک کو اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف میڈیا کو اپنی روزانہ کی نشریات کے لیے سماجی تحاریک کو کور کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، اس معاملے میں دونوں کے مفاد ایک نہیں ہوتے۔ سماجی تحاریک چاہتی ہیں کہ میڈیا ان کے مقصد، پیغام اور جدوجہد سے متعلق خبریں نشر کرے جبکہ صحافیوں کی دلچسپی اس کے علاوہ ہر چیز میں ہوتی ہے مثلاً سماجی تحاریک میں ہونے والی توڑ پھوڑ، ان کی حمایت اور مخالفت اور ان کے رہنمائوں کی ذاتی زندگی وغیرہ وغیرہ۔
پاکستانی میڈیا عورت مارچ کو کچھ اسی انداز میں کور کر رہا ہے۔ عورت مارچ پر ہونے والی اب تک کی میڈیا کوریج مارچ کی مخالفت اور اس کے نتیجے میں اٹھنے والے اقدامات کے بارے میں رہی ہے۔ مارچ کیا ہے، کیوں ہو رہا ہے، کیسے ہو رہا ہے، اس پر کم ہی میڈیا رپورٹس بنائی گئی ہیں۔
میڈیا وہ واحد ذریعہ ہے جس سے عوام سماجی تحاریک کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ میڈیا کسی بھی سماجی تحریک کی مثبت یا منفی کوریج کر کے عوام کی ذہن سازی کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اسی لیے میڈیا کوریج کسی بھی تحریک کو کامیاب یا ناکام بنا سکتی ہے۔ دنیا بھر کے میڈیا اسکالرز برسوں سے سماجی تحاریک اور ان کی میڈیا میں فریمنگ کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
اس موضوع پر کی گئی تحقیق کے مطابق میڈیا پدرشاہانہ سوچ کے تحت کام کرتا ہے۔ میڈیا میں کام کرنے والے زیادہ تر افراد مرد ہوتے ہیں۔ اس میڈیا کو پڑھنے، دیکھنے اور سننے والے بھی زیادہ تر مرد ہوتے ہیں۔ میڈیا میں کام کرنے والے مرد میڈیا استعمال کرنے والے مردوں کے لیے نشریاتی مواد بناتے ہیں۔ حقوقِ نسواں کی تحریک میں چونکہ عام آدمی کی دلچسپی نہیں ہوتی اس لیے میڈیا اسے کور بھی نہیں کرتا۔ وہ اس تحریک کو صرف اس وقت کور کرتا ہے جب اس میں شامل خواتین اپنے جذبات کے اظہار کی انتہاء پر پہنچ چکی ہوں۔ مثلاً جب وہ غصے سے آگ بگولہ ہو جائیں یا کچھ ایسا کریں جو کسی بھی پدرشاہی معاشرے میں عورت کے کرنے کا کام نہ سمجھا جاتا ہو۔ میڈیا جب ایسے واقعات کو کور کرتا ہے تو عوام کے ذہنوں میں فیمینسٹ کا ایک چیختا چگھاڑتا ہوا خاکہ بنتا ہے جو انہیں بالکل پسند نہیں آتا۔
عموماً سمجھا جاتا ہے کہ جو نشریاتی ادارے ترقی پسندانہ سوچ کے تحت کام کر رہے ہوں ان کی میڈیا کوریج بھی ویسی ہی ہوگی۔ سماجی تحاریک کے معاملے میں یہ اصول بھی لاگو نہیں ہوتا۔ ایک ترقی پسندانہ سوچ کا حامل نشریاتی ادارہ کسی بھی سماجی تحریک کی روائیتی انداز میں کوریج کر سکتا ہے اور ایک روائیتی سوچ رکھنے والا نشریاتی ادارہ کسی بھی سماجی تحریک کی ترقی پسندانہ انداز میں کوریج کر سکتا ہے۔
جو تحاریک میڈیا کے لیے باقاعدہ مواد بناتی ہیں، میڈیا ان کی کوریج نسبتاً بہتر انداز میں کرتا ہے۔ ایک برطانوی محقق اور ابلاغِ عامہ کی پروفیسر کیٹلن مینڈس نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے امریکی اور برطانوی اخبارات میں فیمینزم کی دوسری لہر کی نیوز فریمنگ کا تقابلی جائزہ لیا تھا۔ ان کی تحقیق کے مطابق امریکی میڈیا نے برطانوی میڈیا کے مقابلے میں فیمینزم کی دوسری لہر کی زیادہ بہتر کوریج کی تھی اور اس کی وجہ اس وقت امریکہ میں فیمینسٹ اداروں کا مضبوط اور مرتب ہونا تھا۔ وہ میڈیا کی طاقت سے بخوبی واقف تھے اور اسے اپنی تحریک کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بہتر انداز میں استعمال کرنا جانتے تھے۔ وہ میڈیا کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں رہتے تھے۔ اس کے لیے ایسی تقاریب کا انعقاد کرتے تھے جس میں اس کی دلچسپی ہو اور جو اس کی رسائی میں ہوں۔ دوسری طرف برطانیہ میں فیمینسٹ ادارے میڈیا سے دور بھاگتے تھے۔ میڈیا بھی ان کی تقاریب کو کور نہیں کرتا تھا۔ اگر کور کرتا بھی تو منفی انداز میں۔
اس سال پانچواں عورت مارچ ہوا ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ عورت مارچ پہلے سے زیادہ منظم اور مرتب ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے عورت مارچ کی انتظامیہ میڈیا کو مارچ کی کوریج کے لیے ہدائیت نامہ بھی جاری کر رہی ہیں اور انہیں میڈیا پاس بھی جاری کر رہی ہیں تاکہ صرف وہی صحافی مارچ کور کر سکیں جو صحافت کی بنیادی اخلاقیات جانتے ہوں۔ عورت مارچ کو میڈیا کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں رہنا ہوگا۔ اپنی تقریبات کے حوالے سے پریس ریلیز بھیجنی ہوں گی اور ایسی تقریبات منعقد کرنی ہوں گی جن میں میڈیا کی دلچسپی ہو۔ میڈیا اداروں کو بھی چاہئیے کہ وہ اپنے صحافیوں کو سماجی تحاریک کور کرنے کے حوالے سے تربیت فراہم کریں تاکہ وہ ان تحاریک کو بغیر کسی تعصب کے کور کر سکیں۔ اس کے بغیر عوام تک عورت مارچ کا مقصد کبھی نہیں پہنچ سکے گا۔
Discussion about this post