پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے 3سال مکمل ہونے پر جہاں اسلام آباد میں شاندار تقریب کا اہتمام کیا، وہیں اخبارات اور سوشل میڈیا پر حکومت نے خوشحالی اور ترقی سے آراستہ کئی اشتہارات یا پوسٹرز بھی پوسٹ کیے، جنہیں وفاقی وزرا، مشیران اور معاونین خصوصی کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کارکنوں نے بڑی چاہ کے ساتھ اپنی وال کی زینت بنایا۔
ایسے میں رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش میں مسلم لیگ ن کی مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ کروڑوں روپے خرچ کرکے حکومت نے جھوٹی کارکردگی کے اشتہار اخبارات میں لگائے، جعلی رپورٹ کی حقیقت ان اشتہارات میں لگی ہوئی تصاویر سے ہی عیاں ہوجاتی ہیں۔ چند ہی لمحے بعد مریم اورنگزیب نے ’بریکنگ نیوز‘ کا تڑکا لگا کر ایک اور ٹوئٹ یہ بھی کر ڈالا کہ ان اشتہارات میں دکھائی جانے والی تصاویر اصل پاکستان کے برعکس بھارتی ویب سائٹ سے اڑائی گئی ہیں۔
حقیقت میں کیا تصاویر جعلی تھیں؟
ان اشتہارات میں استعمال ہونے والی تصاویر کا جائزہ لیں تو واقعی ان میں سے کچھ تصاویر بھارتی ویب سائٹ سے ہی لی گئی تھیں۔ مگر کہانی میں اُس وقت ڈرامائی موڑ آیا جب تحریک انصاف نے بھی جوابی وار کرتے ہوئے نواز شریف حکومت میں شائع ہونے والے اشتہارات کی بھرمار کردی، جن کے حوالے سے کہا گیا کہ ان میں استعمال ہونے والی تصاویر بھی درحقیقت بھارتی ویب سائٹ سے ہی اتاری گئی تھیں، یعنی اگر آج پی ٹی آئی حکومت اس ویب سائٹ کی تصاویر کا سہارا لے رہی ہے تو بھئی ماضی میں ایسا ہی کچھ کام ن لیگ بھی تو کرتی رہی ہے، پھر شور شرابا یا واویلا کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
حکومتی اشتہارات کون بناتا ہے؟
عام طور پر یہ کام مختلف وزارتوں کے شعبہ تعلقات عامہ کا ہوتا ہے۔ جو اپنے اشتہار جاذب نظر، پرکشش اور پراثر بنانے کیلئے جہاں ان کو خوبصورت تحریروں سے آراستہ کرتے ہیں، وہیں ان میں استعمال ہونے والی تصاویر میں خوش حالی اور ترقی کی نئی منزلیں اور عکاسی کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اس مقصد کو پانے کیلئے ہر حکومت کا شعبہ تعلقات عامہ منظور شدہ ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی خدمات حاصل کرتا ہے۔
بھارتی ویب سائٹ کا ہی کیوں انتخاب؟
پاکستان اور بھارت کے عوام، اپنی شکل و صورت اور کچھ لباس کی وجہ سے مماثلت رکھتے ہیں۔ مشابہت بھی کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے، اسی لیے عام طور پر بھارتی ماڈلز کی ان تصاویر کا انتخاب کیا جاتا ہے، جو اپنے لباس اور انداز سے بھی پاکستانی ہونے کا تاثر دیں۔ پھر اس طرح بنی بنائی تصاویر کا استعمال کرکے ماڈلز اور فوٹوگرافی کا خرچہ بھی بچایا جاتا ہے۔
ن لیگ اور پی ٹی آئی نے کس ویب سائٹ کا سہارا لیا؟
دراصل یہ بھارتی ویب سائٹ امیجز بازار ڈاٹ کام ہے، جہاں آپ کو ہر موضوع، ہر موقع محل اور ہر عمر کے افراد کی تصاویر مختلف انداز میں باسانی مل جائیں گی۔ ویب سائٹ کے ذریعے آپ طے شدہ معاوضہ ادا کرکے کوئی بھی تصویر یا ویڈیو حاصل کرسکتے ہیں اور ان تصاویر کی ’شارپنس‘ ایسی ہوتی ہے کہ آپ اس کا جہازی ساز پوسٹر بھی بناسکتے ہیں۔
جبکہ ویب سائٹ کی کسی بھی تصویر پر ’کلک‘ کرکے آپ درمیانے سائز کی تصویر حاصل کرسکتے ہیں۔ عام طور پر حکومتی اشتہارات میں حکمرانوں کو بڑی بڑی تصاویر کو اہمیت دی جاتی ہے، اسی لیے پاکستان میں قائم ایڈورٹائزنگ ادارے درمیانے سائز کی تصاویر سے کام چلا کر خرچے کو بچا لیتے ہیں۔
اب ان کی یہی کارستانی اپوزیشن کو موقع دے دیتی ہے کہ وہ حکومت پر گھن گرج کے ساتھ برسیں کہ جعلی ترقی اور خوشحالی مت دکھائیں۔ بہرحال پی ٹی آئی حکومت کو ان کے ہمدرد یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اگلے سال جب 4برس ہوجائیں مکمل تو اوریجنل تصاویر کا استعمال کرکے یہاں بھی ن لیگ کا منہ بند کرادیں۔ خیر جناب ایڈوٹائزرنگ ایجنسیز کا بھی کیا کہنا، جو ہمیشہ ’شار ٹ کٹ‘ کے چکر میں کیا کچھ نہیں کرتے۔
یاد نہیں 2010میں بھارتی سرکاری اشتہار میں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ، سونیا گاندھی، سہیواگ اور کپل دیو کے ساتھ پاکستان کے سابق ائیر چیف تنویر محمود احمد کی تصویر بھی لگادی گئی تھی۔ جس پر بھارت میں ایک ہنگامہ مچ گیا تھا۔
Discussion about this post