” آپ ذہنی طور پر اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں لیکن جب طوفان آتا ہے تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پاس کچھ نہیں ہے جو آپ اس کے لیے کر سکتے ہیں” یہ الفاظ آفرین فاطمہ کے ہیں۔ 24 برس کی باہمت اوربلند حوصلہ آفرین فاطمہ ایک طالبہ ہی نہیں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی سرگرم طالب علم رہنما بھی ہے۔ جو بھارتیا جنتا پارٹی کے مسلم دشمن اقدامات پر کھل کرآواز اٹھاتی ہیں لیکن گزشتہ 2 دن سے وہ سخت اذیت کا شکار ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی کےدہشت گرد لیڈروں کی جانب سے ناموس رسالت پر گستاخانہ بیان پر وہی نہیں ان کے والد جاوید احمد نے کھل کر تنقید کی تو پولیس پورے گھرانے کو اٹھا کر لے گئی۔ ان میں آفرین کی والدہ اور بہن بھی شامل ہیں۔
الہ آباد سے تعلق رکھنے والی آفرین فاطمہ کے لیے اُس سے بڑا ایک اور ڈروانا خواب یہ تھا کہ اس کے آبائی گھر کو تجاوزات قرار دے کر مسمار کردیا گیا ہے۔ افرین کا کہنا ہے کہ ” جب یہ ہوا تو میں نے خود کو مفلوج اور بے بس محسوس کیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کروں اور کس کو فون کروں۔” بطور طالب علم رہنما آفرین فاطمہ نے کئی تلخ واقعات کو یاد کیا ۔24 گھنٹے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اسے یقین سے نہیں معلوم کہ والد کو کہاں رکھا گیا۔ آفرین کہتی ہیں کہ” ابھی صرف ایک چیز چاہتی ہوں کہ میرے والد کہاں ہیں اور یہ جاننا کہ وہ محفوظ بھی کہ نہیں ؟ میں اپنی والدہ اور بہن کی واپسی چاہتی ہوں۔ ” جمعہ کی رات فاطمہ اپنی 19 سالہ بہن، والدہ، بوڑھی خالہ، بھابھی اور چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر پر تھیں کہ پولیس وہاں پہنچی اور ان کے والد کو پوچھ گچھ کے بہانے لے گئی۔ فاطمہ کے مطابق ایک بار پھر پولیس آئی اور ان کی والدہ اور کم سن بہن کو پھر پوچھ گچھ کے بہانے لے گئی۔ فاطمہ کے مطابق صبح ڈھائی بجے کے قریب جب پولیس تیسری بار آئی اور اسے اور اس کی بھابھی کو اپنے ساتھ آنے کو کہا تو دونوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ انہیں کیوں بلایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے چھوٹے بچوں اور اپنی بوڑھی خالہ کو تنہا چھوڑنا ناممکن تھا جو کہ انتہائی مایوسی کا شکار تھیں۔ جب انہوں نے جانے سے انکار کر دیا تو فاطمہ کے مطابق، ایک پولیس اہلکار نے کہا کہ اگر وہ پولیس کے ساتھ نہیں آتیں تو بھی انہیں گھر سے نکل جانا چاہیے کیونکہ یہ "ہٹ لسٹ” پر ہے ۔ جب حکام کی جانب سے اس کے گھر کو گرانے کی منصوبہ بندی کی خبریں آئیں تو وہ سر چھپانے کے لیے نامعلوم مقام پہنچ گئی۔
فاطمہ نے کہا کہ ان کے والد کے حامیوں کا ایک وسیع حلقہ تھا جس میں وکلا بھی شامل تھے جو ان کی مدد کر رہے تھے۔ ۔ فاطمہ نے کہا "میرے والد ذیابیطس کے مریض ہیں اور انہیں روزانہ انسولین کے انجکشن کی ضرورت ہوتی ہے۔24 گھنٹے سے زیادہ ہو چکے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہیں ۔ جہاں تک انہیں سوشل میڈیا پر ملنے والی حمایت اور پذیرائی کا تعلق ہے، فاطمہ نے کہا کہ وہ بے حد قابل ستائش ہیں لیکن اس سے ان کی موجودہ حقیقت یا قانونی بلیک ہول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، جس میں ان کے خاندان کو کھینچ لیا جائے گا یا پریاگ راج پر اترنے والے خوف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ پولیس ہر جگہ تعینات تھی۔ فاطمہ نے انتہائی دکھی لہجے میں کہا "آج کسی بھی مسلم خاندان کو ایسا لگتا ہے کہ اگر وہ بولیں تو پولیس آ کر کسی عزیز کو گرفتار کر سکتی ہے۔”
Discussion about this post