کوئی پانچ چھ کے قریب ہیش ٹیگ ہوں گے جو لاہور کے گریٹر پارک میں ہونے والے خوف ناک اور لرزہ خیز واقعے پر بنا دیے گئے ہیں ، جہاں کئی افراد یو ٹیوبر اور ٹک ٹاک اسٹار عائشہ اکرم پر جنونی اور بد مست افراد کے ہلہ بولنے اور اس کے کپڑوں کو تار تار کرنے کی جستجو پر سراپا احتجاج ہیں۔ اسے فٹ بال کی طرح فضا میں اچھالنے اور اسے دبوچنے پر تنقید کررہے ہیں ، وہیں کچھ یہ راگ بھی الاپ رہے ہیں کہ خاتون کو کیا ضرورت تھی کہ بن ٹھن کر اس قدر بھرے مجمے میں پہنچ کر اپنے شوق کو پورا کرے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی خواتین گھروں میں ہی قید رہیں ؟ اُن مقامات کا رخ نہ کریں جہاں مردوں کی بہتات ہو؟ بدقسمتی یہ ہے کہ لاہوری خاتون کے ساتھ ان کا مرد اسٹاف بھی تھا لیکن سیکڑوں افراد کی موجودگی وہ ان سب کی درندگی اور بے رحمی کو روکنے میں ناکام رہا ۔
I’ve been carrying these weapons with me since uni days but stopped carrying it since I started traveling in BRT but this #minarepakistan incident scared me to the soul and I’ve decided that I’ll start carrying it again. I’m scared AF watching that video 😣😣 pic.twitter.com/aBBXT2VXoq
— صدف خٹک (@Sa_ddaf) August 17, 2021
بطور پاکستانی ہماری منزل کیا ہے ؟
اہم سوال یہ ہے کہ ہم جا کہاں رہے ہیں؟ خاص کر ایسے میں جب ہمارے اسمارٹ وزیراعظم عمران خان یہ بات دہرا چکے ہیں کہ ان کے پردے کا مطلب صرف لباس نہیں بلکہ پردہ صرف خواتین کے لیے ہی نہیں ، مردوں کے لیے بھی ہے کیونکہ اسلام خواتین کو عزت و احترام دیتا ہے ۔ تو پھر یہ معمولی سی بات مرد حضرات کی سمجھ سے بالاتر کیوں ہے ؟ المیہ یہ ہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب پڑوس میں افغانستان میں طالبان جیسی سخت گیر اور کٹر سوچ رکھنے والی قیادت یہ کہتی نظر آرہی تھی کہ افغان خواتین کو شریعت کے مطابق حق دیں گے ۔ ملازمت کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے ۔ خواتین گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہیں اور تعلیم بھی حاصل کر سکتی ہیں اور ایک ہم ہیں جو تنہا خاتون کو دیکھ کر بپھرے ہوئے کتے کی طرف اُس پر جھپٹ پڑے ۔ کیا وجہ ہے کہ جنسی ہراسانی کے واقعات صرف دفاتر ہی نہیں اب کھلے عام ہو رہے ہیں ۔ کیوں تنہا لڑکی کو پست سوچ رکھنے والے ” لوٹ کا مال ” سمجھتے ہیں ؟
متاثرہ لڑکی کا بیان
متاثرہ لڑکی عائشہ اکرم کے مطابق چودہ اگست کو وہ اپنے اسٹاف کے ساتھ مینار پاکستان کے احاطے میں گریٹر اقبال پارک میں ویڈیو بنانے کے لیے گئی تھی۔ ہجوم نے پہلے جملے کسے اور پھر اس سے بھی بس نہیں چلا تو اُن پر ٹوٹ پڑے ۔ جس پر عائشہ جان بچھانے کے لیے محفوظ مقام کی تلاش میں پورے پارک میں بھاگتی رہیں اور ایک ہجوم تھا جو ان کے تعاقب میں رہا ۔ جس کا جو بس چلا ، اُس نے وہی کیا ۔ صورت حال ایسی آگئی کہ وہ اپنی جان اور عزت بچانے کے لیے گہرے تالاب میں چھلانگ لگانے پر تیار تھی ۔ اسٹاف نے پولیس کی ہیلپ لائن پر بھی کوشش کی لیکن کچھ نہ ہوا ۔ عائشہ فریاد کرتی رہی التجائیں ہوتی رہیں لیکن کسوئی آہ و پکار شاید مینار پاکستان کے بلند و بالا مینار سے ٹکرا کر کسی کے کانوں تک نہ پہنچ سکیں ۔ حد تو یہ ہے کہ ان جنونی اور مشتعل جنسی نفسیاتی بیماری کے شکار افراد نے جنگلے کے پار پناہ لینے والی عائشہ کو قابو کرنے کے لیے جنگلہ تک توڑ ڈالا ۔
بڑی مشکل سے جان بچاتے ہوئے عائشہ محفوظ مقام تک پہنچی ۔ عائشہ کا کہنا ہے کہ جشن آزادی کی مناسبت سے اس نے خصوصی لباس سلوایا تھا ، جو اوباش نوجوانوں نے جگہ جگہ سے پھاڑ ڈالا ۔ حیران کن اور خوف ناک بات یہ ہے کہ یہ سارا عمل شام ساڑھے چھ سے نو بجے تک جاری رہا اور کوئی اہلکار مدد کو نہ آیا ۔ عائشہ کا مطالبہ ہے کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا سو ہوا ۔۔ لیکن اب حکومت کو چاہیے کہ اقبال پارک کو صرف فیملی کے لیے مخصوص کیا جائے تاکہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہ رونما ہو ۔
واقعہ کی ایف آئی آر درج
اس دلخراش واقعے کا پرچہ تھانہ لاری اڈہ میں درج ہوگیا ہے ۔ عائشہ اکرم نے الزام لگایا ہے کہ ناصرف ان پر جنسی ہراسانی کا حملہ ہوا بلکہ ان کو مارا اور پیٹا بھی گیا ۔ جب کہ انہیں سیل فون ، کیش اور سونے کے ٹاپس تک سے محروم کردیا گیا۔

کیا 400 کے قریب ملزمان گرفتار ہوسکتے ہیں؟
بظاہر تو یہ ناممکن ہے لیکن اگر پولیس ان ویڈیو کی مدد لے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہیں تو ان میں چیدہ چیدہ افراد کی شناخت کرکے انہیں تھانوں تک لایا جاسکتا ہے ۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 400 نہیں تو کم از کم 100 افراد کو گرفتار کرکے ان سے مزید تفتیش کی جائے تو باقی ملزمان بھی سلاخوں کے پیچھے ہوسکتے ہیں۔
کیا ہیش ٹیگ اور نوٹس ہی سب کچھ ہے ؟
حالیہ ہفتوں میں ذرا پیچھے پلٹ کر دیکھیں تو خواتین کے ساتھ ہراسانی کے بے شمار واقعات ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ کبھی کوئی رکشہ میں بیٹھی لڑکی کے تعاقب میں ہوتا ہے تو کہیں نورمقدم نفسیاتی اور جنونی بیماری کی بے نوری کا شکار ہوتی ہے ۔ تو کہیں لاہور کی نایاب ماڈل سوتیلے بھائی کی” نایاب سازشی سفاکیت ” سے زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔
کہیں راہ چلتی باپردہ لڑکی کو دھکا دے کر گرایا جاتا ہے تو کہیں ایک جوڑے کے ساتھ زبردستی قابل اعتراض تصاویر اتار کر اخلاقیات کی ساری حدیں پار کردی جاتی ہیں ۔ ان سب واقعات کے بعد ” جسٹس فار فلاں ” کے ہیش ٹیگ نظروں سے گزرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ بس ہم یہی کر سکتے ہیں۔
I always carry a little pocket scissors. Everybody asks “iss choti si kenchi se kia hi krogi?” And I’d reply "koi tang kre tou mar du gi use.” Today I ask myself, "iss choti si kenchi se kia hi krogi?” 😭💔 #MinarePakistan #Ayesha pic.twitter.com/vgUpDZB6r7
— سیمل (@MahmoodSeimal) August 17, 2021
سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوتا ہے تو اپوزیشن سارے واقعات کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر بری الزمہ ہونے کی پوری کوشش کرتی ہے ۔ رہ گئی حکومت تو وہ ایسے واقعات کا نوٹس لینے کی عادی ہے ۔ تحقیقات ، مذمت اور نوٹس کے بھنور میں کھوئے ذمے دار ابھی سنبھل نہ پاتے ہیں کہ کوئی اور واقعہ ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ اب عالم یہ ہے کہ وزیروں ، مشیروں سے لے کر وزیراعظم عمران خان تک نے لاہور کے گریٹر اقبال پارک واقعے کا نوٹس لے لیا ہے ۔ یقین تو یہی ہے کہ جہاں اور ڈھیر سارے نوٹس گرد میں جمع ہیں ، وہاں جا کر یہ بھی خاک میں ہی مل جائے گا کیونکہ چند ہی دنوں میں کوئی اور واقعہ کوئی اور حادثہ جو سر اٹھائے کھڑا ہوا ۔۔۔ بقول شاعر
نئے ہر روز ہوتے حادثے اچھے نہیں لگتے
بہت حالات بھی سہمے ہوئے اچھے نہیں لگتے
Discussion about this post