سپریم کورٹ نے کراچی میں 15 منزلہ نسلہ ٹاور کو ایک ہفتے میں دھماکہ خیز مواد کے ذریعے گرانے کی ہدایت کردی ہے۔ رواں سال جون میں، عدالت نے سروس روڈ کو گھیر کر اس عمارت کی غیر قانونی تعمیر کے خلاف یہ فیصلہ دیا تھا اور بلڈرز سے کہا تھا کہ وہ رہائشی اور تجارتی یونٹس کے رجسٹرڈ خریداروں کو تین ماہ کے اندر اندر رقم واپس کریں۔ رواں ماہ کے آغاز ہی میں نسلا ٹاور کے رہائشیوں کوعمارت خالی کرنے یا دوسری صورت میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کا نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
دھماکے سے عمارت کیسے اڑائی جائے گی ؟
آپ پتھر کی کسی دیوار کو ہتھوڑے اور چھینی کی مدد سے آہستہ آہستہ گراسکتے ہیں۔ تین چار منزلہ عمارت بھی مزدوروں کی ایک ٹیم یا پھر ڈرلنگ مشینری لگا کر گرائی جاسکتی ہے لیکن بات جب دس یا اس سے زائد منزلوں کی فلک بوس عمارت کو گرانے کی ہو تو دنیابھر میں دھماکہ خیز مواد کے زریعے گرانے کا طریقہ کار رائج ہے جو سستا بھی اور کم وقت لینے والا بھی۔ حالانکہ دھماکہ خیز مواد کا نام سن کر تباہی ذہن میں آتی ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب یہ طریقہ محفوظ کہلایا جاتا ہے۔
کیا یہ کام بہت آسان ہے ؟
دھماکہ خیز مواد سے عمارت زمیں بوس کرنے کا بنیادی خیال بہت سادہ ہے، اگر آپ کسی عمارت کے اوپری ڈھانچے کو توڑتے ہیں تو کشش ثقل کی وجہ سے یہ عمارت کے نچلے حصے پر گرے گا یا ارد گرد کی عمارتوں اور گھروں کو نقصان پہنچنے کا ممکنہ سبب بنے گا لیکن ڈیمالیشن بلاسٹرز عمارت کے کئی مختلف حصوں اور ستونوں پر بیک وقت لگا کر چلائے جاتے ہیں جس سے انجیئنرز عمارت کے ڈھانچے کو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ایک مخصوص سمت میں اور مقام پر گرانا یقینی بناتے ہیں۔ اس طریقے سے گرنے والی عمارت کے بچ جانے والے سامان کا مجموعی نقصان نسبتا کم ہوتا ہے اور ڈھانچے کو مکمل طور پر گرانے کا عمل بھی یوں آسان ہوجاتا ہے کہ پھر صفائی کے عملے کے پاس اٹھانے کے لیے صرف ملبے کا ڈھیر بچتا ہے۔
آخر طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟
کثیر المنزلہ عمارتوں کو بحفاظت گرانے کے لیے، دھماکے کرنے والے ماہرین اس عمل کے ہر عنصر کا نقشہ بناتے ہیں اور عمارت کے اسٹرکچر کو باریک بینی سے پرکھا جاتا ہے۔۔ پہلے مرحلے میں عمارت کے آرکیٹیکچرل بلیو پرنٹس کی جانچ کی جاتی ہے جس کے بعد بلاسٹر کا عملہ عمارت کے دورے کر کے جدید آلات کے زریعےدراڑوں اور عمارت میں لگے میٹریل کا باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے۔ جب یہ ٹیم ضرورت کا تمام ڈیٹا اکٹھا کر لیتی ہے تو دھماکے کرنے والے اپنا کام شروع کرتے ہوئے اس ڈیٹا کی بنیاد پر ایکسپلوزِو لگانے کی تیاریاں شروع کردیتےہیں۔ عمارت کے میٹریل کی مناسبت اور اپنے تجربات کی بنیاد پر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہدام کے لیے کون سا دھماکہ خیز مواد استعمال کرنا ہے، انہیں عمارت میں کہاں کہاں نصب کرنا ہے اور اس عمل کا وقت کیا ہونا چاہیے ۔ بعض صورتوں میں، دھماکے کرنے والے ڈھانچے کےکمپیوٹر ماڈل تیار کرتے ہیں اور عمارت گرانے کے پورے عمل کی تھری ڈی ویڈیوز بناکر مختلف پہلووں سے جائزہ لیا جاتا ہے۔۔
اردگرد کی عمارتوں کو بچانے کا عمل
عمارت کو نیچے لانے میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ ایک کنٹرولڈ انہدام کرکے ارد گرد کی عمارتوں یا آبادی کو ممکنہ تباہی سے بچایا جائے ۔ مثلاً اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ دھماکے کرنے والا عملہ آیا عمارت کو کسی مخصوص سمت جیسے پارکنگ لاٹ میں یا دوسرے کھلے علاقے میں گرانے کے قابل ہو سکے گا یا نہیں۔ اس قسم کی کارروائی کو انجام دینا سب سے آسان ہوتا ہے۔ بلاسٹرز عمارت میں کالموں کو سہارا دینے کے لیے اسٹیل کیبلز کا استعمال کرتے ہیں تاکہ ڈھانچہ گرنے کے ساتھ ہی انہیں ایک خاص طریقے سےمطلوبہ سمت میں کھینچ لیا جائے۔ مصروف علاقوں میں جہاں عمارتیں ہی عمارتیں کھڑی ہیں وہاں انجئنیرز عمارت کے بنیادی ستونوں پر ایک ساتھ کئی دھماکے کرتے ہیں تاکہ یہ سیدھی اپنے قدموں کے نشان (عمارت کی بنیاد پر کل رقبہ) پر آگرے۔ لیکن اس عمل میں انتہائی مہارت درکار ہوتی ہے اور دنیا کی مٹھی بھر انہدامی کمپنیاں ہی اس عمل کے نتائج کو یقینی بنانے کے قابل سمجھی جاتی ہیں۔
ماہرین کی رائے کیا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں تقریباً ہر عمارت منفرد ہے اور کسی بھی عمارت کے لیے، دھماکے کرنے والا عملہ اسے گرانے کے کا مختلف طریقہ اختیار کرسکتاہے لیکن بنیادی خیال ایک ہی ہوتا ہے کہ عمارت اس انداز سے گرے کہ ملبہ ہٹانے کا کام بعد میں آسان سے آسان ہو ۔ اسی وجہ سے دھماکے کرنے والے دھماکہ خیز مواد کو اس انداز سے سیٹ کرتے ہیں کہ عمارت اپنے مرکز کی طرف زمین بوس ہو۔ عام طور پر بلاسٹرز پہلے نچلی منزلوں پر بڑے سپورٹ کالموں کو تباہ کرنے کے لیے طاقتور مواد لگاتے ہیں اور پھر بتدریج اوپری منزلوں کا رخ کرتے ہیں لیکن زیادہ تر کیسس میں نچلی منزلوں پر سپورٹ ڈھانچے کو اڑانا ہی عمارت گرانے کے لیے کافی ہوتا ہے البتہ اوپری منزلوں پر کالموں کو اڑانے سے ان کے چھوٹے ٹکڑوں میں ٹوٹنے میں مدد ملتی ہے اور بعد میں ملبہ اٹھانے کے دوران مدد دیتاہے۔
ایک بار جب دھماکے کرنے والے یہ طے کر لیتے ہیں کہ امپلوژن کیسے کرنا تو اگلا عمل دھماکہ خیز مواد عمارت میں نصب کرنے کا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں پہلے انجیئنرز بوجھ برداشت نہ کرنے والی دیواروں کو نکال دیتے ہیں جس سے منازل صاف ہوجاتی ہیں۔ اگر یہ دیواریں برقرار رہیں تو دھماکے بعد ملبہ اٹھانا انتہائی دشوار ہوجاتا ہےبلکہ اکثر یہ دیواریں اسٹرکچر کے کئی حصوں کو گرنے ہی نہیں دیتیں۔ اس کام کے لیے ہتھوڑوں یا اسٹیل کٹرز کی مدد لی جاتی ہے۔ اس کے بعد عمارت کا اصل بوجھ اٹھانے والے کالموں پر دھماکہ خیز مواد نصب کرنے کی باری آتی ہے۔ کالموں کی موٹائی کے حساب سےدھماکہ خیز مواد کی مقدار کا تعین کیا جاتا ہے۔
کون سا دھماکہ خیز مواد استعمال ہوتا ہے؟
کنکریٹ کے کالموں کے لیے روایتی ڈائنامائٹ یا اسی طرح کا دھماکہ خیز مواد استعمال ہوتا ہے۔ ڈائنامائٹ ایک انتہائی آتش گیر کیمیکل جو انتہائی تیزی سے جلتا ہے اور بہت تھوڑے وقت میں بڑی مقدار میں حرارت پیدا کرتا ہے۔ حرارت پر مشتمل یہ گیس اتنی ہی تیزی سے پھیلتی ہےاور اپنے اردگرد جو کچھ بھی ہے اس پر بے پناہ بیرونی دباؤ (600 ٹن فی مربع انچ تک) ڈالتی ہے۔ الیکٹرانک ڈیوائس کے زریعے بھڑکانے پر ڈائنامائٹ کنکریٹ کے کالموں میں کھودے ہوئے تنگ سوراخوں کو کچل کر دکھ دیتے ہیں۔ اس دوران ایک طاقتور جھٹکا یا لہر وجود میں آتی ہے جو کالموں میں جاکر سپرسونک رفتار سے پھٹتی ہے اور کنکریٹ جیسا مضبوط ترین میٹریل بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھر جاتا ہے۔ اسٹیل کے کالموں کو گرانا قدرے مشکل ہے کیونکہ یہ کنکریٹ سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اسٹیل سپورٹ اسٹرکچر والی عمارتوں کے لیے بلاسٹر عام طور پر خصوصی دھماکہ خیز مواد آر ڈی ایکس استعمال کرتے ہیں جو بل پھر میں مضبوط سے مضبوط کالم کو پگھلانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
آر ڈی ایکس ہو یا ڈائنامائٹ دونوں کو بھڑکانے کے لیے ایک شدید جھٹکا درکار ہوتا ہے جو فیوز کے زریعے ممکن بنایا جاتا ہے۔ روایتی فیوز ڈیزائن ایک لمبی ڈوری ہے جس کے اندر دھماکہ خیز مواد ہوتا ہے۔ جب آپ ڈوری کے ایک سرے کو آگ لگاتے ہیں تو اس کے اندر موجود دھماکہ خیز مواد مستقل رفتار سے جلتا ہے اور شعلہ ڈوری کے نیچے سے دوسرے سرے پر موجود ڈیٹونیٹر تک جاتا ہے۔ جب یہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے تو یہ بنیادی چارج کو بند کر دیتا ہے اور دھماکا عمل میں آتا ہے۔ دھماکے کرنے والے بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ وہ سپورٹ اسٹرکچر کو اوورلوڈ یا انڈر لوڈ نہ کریں ند کالموں پر ٹیسٹ دھماکے کرتے ہیں، اسی طرح دھماکہ خیز مواد کو مختلف ڈگریوں کو آزمایا جاتا ہے اور ہر دھماکے کی تاثیر کی بنیاد پرکالم گرانے سے متعلق حتمی فیصلے لیےجاتےہیں۔
Discussion about this post