عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ نے ہائی پروفائل مقدمات میں مبینہ حکومتی مداخلت پرسماعت کی۔ اس موقع پر ایف آئی اے نے تمام مقدمات کا ریکارڈ جمع کرایا۔ جس میں بتایا گیا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت ایف آئی اے کے 14 ہائی پروفائل ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ کابینہ ارکان نے تو بظاہر ای سی ایل کو ختم ہی کردیا ہے۔ کسی بھی تحقیقاتی ادارے،ایجنسی اور ریاستی عضو کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانونی عمل پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کسی مقدمے میں اگر کسی کو کوئی جان نظر نہیں آتی تو متعلقہ عدالت سے رجوع کریں۔ پارلیمنٹ سے قانون سازی قانونی تقاضوں کے مطابق ہو۔ یہ کسی کیلئے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ایسا حکم نہیں دینا چاہتے، جس سے حکومت کو مشکلات ہوں۔ جسے سرکاری کام سے باہر جانا ہے اسے اجازت ہونی چاہیے، جو ملزم بھی بیرون ملک جانا چاہے تو وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہوگی۔ سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کیا کرنا چاہتی ہے؟ لگتا ہے حکومت کمزور وکٹ پر کھڑی ہے ۔ ای سی ایل سے متعلق کوئی قانونی وجہ ہے تو بیان کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل پر تھے، ماضی میں بھی اسی انداز میں ای سی ایل سے نام نکالے جاتے رہے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت کا یہ جواب ہے کہ ماضی میں ہوتا رہا تو اب بھی ہوگا ؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اچھا لگا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے خود پیش ہوکر ضمانت کرائی۔ ازخود نوٹس کیس کی سماعت 27 جون تک کیلئے ملتوی کردی گئی ہے۔
Discussion about this post