ظاہر جعفر نے شاطرانہ چال چلتے ہوئے اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اُس پر قتل کا الزام غلط ہے۔ قتل والی رات نور مقدم نے ڈرگ پارٹی کا اہتمام کیا، جس کے دوران وہ اس قدر منشیات استعمال کرگیا کہ بے ہوش ہوگیا۔ جب ہوش آیا تو خود کو کرسی پربندھا پایا ۔ بعد میں پتا لگا کہ کسی نے نور مقدم کا قتل کردیا۔ جس کے کچھ وقفے کے بعد اسلام آباد پولیس کے اہلکار یونیفارم اور سادہ کپڑوں میں گھس آئے۔ پولیس نے جائے حادثہ سے جو آلہ قتل برآمد کیا،اِس پر ظاہر جعفر کی انگلیوں کے نشان نہیں تھے اور یہ نشانات اس وقت لیے جب موکل کو گرفتار کیا گیا۔ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل عثمان ریاض گل نے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت کی جانب سے دریافت کیے گئے 25 سوالات کے جواب بھی دیے۔
جس میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا کہ مقتولہ نور مقدم کا ان کے موکل سے مرضی کے تعلقات تھے۔ اسی بنا پر ڈی این اے میں رپورٹ مثبت آئی۔ وکیل کے مطابق ظاہر جعفر نے کبھی نور مقدم کو اغوا نہیں کیا بلکہ یہ باہمی رضا مندی والے تعلقات تھے۔ موکل ظاہر جعفر کی 19 جولائی 2021 کو امریکا روانگی تھی۔ یہاں تک ان کی ٹکٹ بھی کنفرم تھی۔ وکیل کے مطابق نور مقدم نے ڈرگ پارٹی زبردستی رکھی تھی، جس پر ظاہر جعفرآمادہ نہیں تھے۔ وکیل کا دعویٰ تھا کہ جو جائے حادثہ پستول سے ملا وہ لائسنس یافتہ ہے اور پولیس نے مدعی اور نور مقدم کے والد سے ملی بھگت کرکے اسے جائے وقوعہ کا حصہ بنایا۔ یہاں تک کہ ظاہر جعفر کے کپڑے تک استعمال کیے گئے۔ مقدمے کی بیشتر تفتیش تھانے میں بیٹھ کر کی گئی اور برآمدگی بھی وہیں ہوئی۔
وکیل کے مطابق ان کے موکل کا موبائل فون تفتیشی افسر کے پاس تھا۔ پولیس کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ ظاہر جعفر کی نشاندہی پر فون برآمد کیا۔ قتل کی اس واردات میں موکل ظاہر جعفر کے گھر کو استعمال کیا گیا۔ عدالت نے اب اس مقدمے کی سماعت پیر تک ملتوی کردی ہے۔
Discussion about this post