وفاقی شرعی عدالت نے سود کخلا ف کیس کا 19سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے سودی نظام سے پاک بینکاری نظام قائم کرنے کا حکم دے دیا۔ جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت ربا سے پاک بینکاری نظام قائم کرنے کے اقدامات کرے ، اسلامی تعلیمات کے مطابق بینکاری نظام قائم کیا جائے، انٹرسٹ سے مراد ربا ہے، قرض سمیت کسی بھی صورت میں لیا گیا سود ربا میں آتا ہے، حکومت کی جانب سے اندرونی یا بیرونی قرضوں پر سود دینا ربا میں آتا ہے۔ فیصلے کے مطابق حکومت اندرونی اور بیرونی قرضوں اور ٹرانزیکشنز کو سود سے پاک بنائے اور وفاق اور صوبے اس بارے میں قانون میں ترامیم کریں۔
فیصلے میں حکم دیا گیا کہ حکومت کے وہ تمام قوانین جن میں سود کا لفظ استعمال ہوا ہے، اسلامی شریعت کے منافی قرار دیئے جاتے ہیں، وفاقی حکومت سود سے متعلق تمام قوانین میں یکم دسمبر تک ترمیم کرے اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت بین الاقوامی اداروں سے ٹرانزیکشن سود سے پاک بنائی جائیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے قرار دیا کہ سود سے پاک بینکاری دنیا بھر میں ممکن ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے سود سے پاک بینکنگ کے منفی اثرات سے متفق نہیں، معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ بینکوں کا ہر قسم کا انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے، قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو اس پر لاگو انٹرسٹ ربا کہلائے گا، ربا مکمل طور پر ہر صورت میں غلط ہے، ربا سے پاک نظام زیادہ فائدہ مند ہوگا، سی پیک کیلئے چین بھی اسلامی بینکاری نظام کا خواہاں ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسلامی بینکاری نظام رسک سے پاک اور استحصال کیخلاف ہے، ملک سے ربا کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہوگا، ربا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہیں، بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول ربا کے زمرے میں آتا ہے۔
شرعی عدالت نے حکومت کو اندرون و بیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کی اور کہا کہ سی پیک کیلئے چین بھی اسلامی بینکاری نظام کا خواہاں ہے۔ عدالت نے سود کے لئے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اورشقوں کوغیرشرعی قراردیتے ہوئے حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کیلئے 5 سال کی مہلت دی ہے۔
Discussion about this post