انڈیا اور پاکستان ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2021 میں اپنا میچ 24 اکتوبر کو کھیلنے جارہے ہیں۔ یہ دونوں ٹیمیں پچھلے ٹورنامنٹ یعنی 2016 کے بعد سے سب سے زیادی میچز جیتنے والی ٹیمیں ہیں۔ جیت کے تناسب سے حساب سے 2017 میں ٹیم بننے والی افغانستان بہترین ہے۔ جبکہ دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز سب سے زیادہ میچ ہاری ہے جس کا کا تناسب 0.66 ہے ۔
ٹاپ 8 ٹیموں کی جیت یا ہار کا تناسب ذہن میں رکھتے ہوئے اصولی طور پر پاکستان اور بھارت کو ہی اس ورلڈ کپ میں فیورٹ ہونا چاہیے ، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ہار اور جیت کا پیٹرن ہمیشہ تبدیل ہوتا آیا ہے۔ جنوبی افریقہ 2012 کے ایڈیشن میں سامنے آنے والی بہترین ٹیم تھی، گزشتہ ورلڈ کپ کے بعد کے عرصے میں اس ٹیم نے 16 میچوں میں 11 جیت جیتے لیکن پھر بڑے ایونٹ میں یکے بعد دیگرے 3 میچ ہارنے سے جنوبی افریقہ کے خواب چکنا چور ہوگئے اور یہ سپر 8 مرحلے سے آگے نہ بڑھ پائی۔ اسی طرح ویسٹ انڈیز، جس نے 2016 میں کے ایونٹ میں کامیابی حاصل کی تھی سیمی فائنل میں انڈیا کو شکست دینے کے بعد ناقابل تسخیر ٹیم بن کر ابھری اور 2014 اور 2016 کے درمیان بہترین ریکارڈ والی ٹیم بن کر سامنے آئی۔
موجودہ ورلڈ کپ کی بات کریں تو اس بار پاکستان سمیت اکثر ٹیموں نے اپنے بہترین کھلاڑیوں کو کھلانے کی بجائے نئے کھلاڑیوں کو آزمایا ہے تا کہ وہ کچھ نئے تجربات سے گزر سکیں اور نئے کھلاڑی لوگوں کے سامنے لا سکیں۔ جیسے ویسٹ انڈیز نے عالمی کپ سے پہلے 118 میں سے صرف 26 میں کرس گیل ، ڈوین براوو اور کیرون پولارڈ جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کو شامل کیا۔ ان 26 میں سے 11 میچ 2021 میں ہی کھیلے گئے جو عالمی کپ کی تیاریوں کے حوالے سے ان کی حکمت عملی کا واضح ثبوت ہے۔
2010 ورلڈ ٹی 20 کے اختتام کے بعد سے ویسٹ انڈیز کا اس فارمیٹ میں جیت کا تناسب 1.555 ہے ، جو کہ ورلڈ کپ کے قریب نہ ہونے پر 0.589 تک گر جاتا ہے۔ پاکستان اور انگلینڈ اس کے برعکس چلتے ہیں۔ ان کا ریکارڈ ورلڈ کپ کی نسبت عام سالوں میں بہت بہتر نظر آتا ہے۔ ورلڈ کپ کے علاوہ عام سالوں میں پاکستان نے 93 میچز کھیلے جو باقی تمام ٹیموں میں سب سے زیادہ ہیں۔ کوئی دوسری ٹیم 72 سے زیادہ میچ نہیں کھیل پائی۔ ورلڈ کپ کے درمیان انگلینڈ کے مضبوط ریکارڈکا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے ٹی 20 ماہرین خواہ وہ سینئیر ہوں یا جونئیر کو مسلسل میدان میں اتارا ہے۔ 2016 کے ورلڈ کپ کے بعد سے ، انگلینڈ نے 50 ٹی ٹوئنٹی کھیلے ہیں ، جن میں سے ان کے کپتان ایون مورگن 45 میں نمایاں رہے ہیں۔ البتہ ورلڈ کپ کے سالوں میں ان کی کمزور پر فارمنس کی وجہ یہ بھی ہے کہ 2012،2014 اور 2016 کے ورلڈ کپ ایشیا میں منعقد ہوئے جو انگلینڈ کے کھلاڑیوں کے لیے زیادہ سازگار نہیں ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنے ٹی 20 اسٹارز کو آئی پی ایل میں زیادہ سے زیادہ کھلا کر ایشیائی وکٹوں پر کھیلنے کی تکنیک بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ رواں ایونٹ کی بات کریں تو موجودہ انگلش اسکواڈ میں سے نصف سے زیادہ متحدہ عرب امارات میں کھیل چکے ہیں۔
آسٹریلیا بھی ویسٹ انڈیز کی طرح ، اس فارمیٹ میں اپنے اسٹار کھلاڑیوں کی خدمات کے بغیر باقاعدگی سے کھیلتا آیا ہے کیونکہ دوسرے فارمیٹس کے لیے کھلاڑیوں کی ترجیح اور ٹورز کے پریشر کی آسٹریلوی پالیسی آڑے آجاتی ہے ۔ تاہم ، ویسٹ انڈیز کے برعکس ، جس کے کئی کھلاڑی دنیا بھر کی ٹاپ لیگز میں شامل ہیں ، آسٹریلوی کھلاڑی مختلف حالات میں ٹاپ لیول ٹی 20 کرکٹ میں بہت کم شامل ہوتے ہیں بلکہ کچھ آسٹریلوی کھلاڑی اپنی لیگ ، بی بی ایل تک نہیں کھیلتے۔
آسٹریلیا نے اس بار کھلاڑیوں کا ایک بڑا پول آزمایا ہے اور بڑے ٹورنامنٹ کے لیے صحیح کمبینیشن تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آسٹریلیوی ٹیم میں ایسا 2014 اور 2016 کے ورلڈ کپ سے پہلے بھی ہوا تھا۔ پچھلے پانچ سالوں میں آسٹریلیا نے 58 ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے ہیں ، لیکن ان میں سے صرف پانچ کھلاڑی نمایاں ہیں جن میں آئرون فنچ ، ایڈم زمپا، الیکس کیری، گلین میکسویل اور ایشٹن اگر شامل ہیں۔
Discussion about this post