شورشرابے اور تیز میوزک میں گھرا ایک ڈرمر، پر تعیش زندگی، ایک پیار کرنے والی گرل فرینڈ اور قدم چومتی کامیابی۔
پھر اچانک یہ شور خاموشی میں بدل جاتا ہے۔ جس ڈرم کی آواز زندگی تھی۔ وہ آواز ہی کھوجاتی ہے۔ اب زندگی 360 ڈگری کا غوطہ کھاتی ہے اور یک دم ساری اسٹوری ہی بدل جاتی ہے۔
یہ کہانی ہے ساونڈ آف میٹل کی۔ یہ کہانی ہے رضوان احمد کی۔ پہلا مسلمان۔ پہلا پاکستانی۔ جو فن اداکاری کے سب سے بڑے اسٹیج آسکر پر جاکھڑا ہوا۔
ویسے تو ہر بار ہی دنیا کو آسکر ایوارڈز کی تقریب کا بےصبری سے انتظار رہتا ہے۔ لیکن میرے لئے اس بار کے آسکر زیادہ خاص تھے۔ کیوں کہ پہلی بار بہترین اداکار کےلئے کوئی پاکستانی ہیرو نامزد تھا۔ لیکن اسے بدقسمتی کہیں یا اتفاق کہ ٹھیک اسی سال جب رز احمد کو آسکر کے لئے نامزدگی ملی۔ اسی سال اینتھونی ہوپکنز کو بھی بہترین اداکار کے لئے نامزد کردیا گیا۔
اینتھونی ہوپکنز۔ وہ اداکار جو اپنی اداکاری کے بل پر کسی کمزور اسکرپٹ میں بھی جان ڈالنے کے لئے مشہور ہیں۔ یہی انہوں نے اپنی فلم "دی فادر” میں کردکھایا اور آسکر ایوارڈ کے حقدار قرار پائے۔
رز کے ہاتھ سے آسکر آتے آتے رہ گیا۔ ورنہ یہ بات میں گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر بہترین اداکار کی نامزدگی کی فہرست میں اینتھونی ہوپکنز کا نام نہ ہوتا تو آسکر پکا رز احمد کا ہی ہوتا۔ کیوں کہ "ساونڈ آف میٹل” واقعی ماسٹر پیس ہے۔
کم بجٹ میں شاہکار کیسے تیار کیا جاتا ہے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ڈیریس مارڈر یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔ جب کہ یہ ان کی پہلی فیچر فلم تھی۔ اور اسی نے انہے راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچادیا۔
ہے نا حیرانی کی بات۔ لیکن رز اور ڈیریس۔ دونوں کے لئے ہی کامیابی کا یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ ڈیریس کو یہ فلم بنانے میں 10سال لگے۔ "ساونڈ آف میٹل”بظاہر سماعت سے محروم افراد کی کہانی ہے۔ البتہ اس فلم کے پیچھے بھی اپنی ہی ایک کہانی ہے۔ جو ایک ملین ڈالر کے چیک سے شروع ہوتی ہے۔ جو کسی اور فلم میکر کو کسی اور فلم کےلئے ملا۔ وہ فلم میکر ڈیریک کیانفرانس تھے۔ جنہے یہ چیک ان کی فلم "بلیو ویلنٹائن” پر آئی ایف پی کی جانب سے انعام کے طور پر ملا۔ اور اسی کامیابی کی خوشی میں دیئے گئے لنچ پر ان کی ملاقات ساونڈ آف میٹل کے ڈائریکٹر ڈیریس مارڈر سے ہوئی۔ جس کے بعد "ساونڈ آف میٹل” کا سفر شروع ہوا۔
یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ ساونڈ آف میٹل دراصل ڈیریک کیانفرانس کی ہی ایک نامکمل ڈاکیومنٹری "میٹل ہیڈ” سے متاثر ہے۔ وہ خود تو اس ڈاکیومنٹری کو مکمل نہیں کرپائے۔ البتہ ڈیریس مارڈر نے اس سے متاثر ہوکر پوری فلم ضرور بنادی۔ اور آج وہ شہرت کی بلندیوں کو چھورہے ہیں۔
ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس فلم پر رز احمد بہترین اداکار کا ایوارڈ تو نہیں جیت پائے۔ لیکن سماعت سے محروم افراد پر بننے والی اس فلم کو بیسٹ ساونڈ کے آسکر ایوارڈ سے ضرور نوازا گیا۔ اس کے علاوہ بہترین فلم ایڈیٹنگ کا ایوارڈ بھی ساونڈ آف میٹل کے نام رہا۔
اصل میں ساونڈ آف میٹل صرف بہترین اداکاری کےلئے ہی نہیں نامزد ہوئی تھی۔ اسے مزید چھ کیٹگریز میں نامزد کیا گیا تھا۔ اور ساونڈ کیٹگری میں یہ ویسے ہی فیورٹ تھی۔
خیر یہ تو بات ہوگئی۔ فلم کے سفر کی۔ اب کچھ مطلب کی بات کرلیں۔ مطلب رز احمد کی۔ رز احمد کون ہیں؟
اچانک سے اتنے ہٹ کیسے ہوگئے کہ آسکر کے لئے نامزد کردیئے گئے۔ تو آپ کو بتادیں۔ اگر آپ بھی میری طرح "بورن”سیریز کے فین ہیں۔ تو اس سیریز کی آخری فلم جیسن بورن میں آپ کو "ایرون کیلور”کا کردار ضرور یاد ہوگا۔ اس کیریکٹر کو دیکھ کر آُپ کو پہلی پرسنلٹی جو ذہن میں آئے گی وہ "مارک زکربرگ”کی ہوگی۔
جب میں نے یہ فلم دیکھی تھی تو مجھے پہلی بار دیکھنے میں یہی لگا تھا کہ یہ کوئی انڈین ایکٹر ہوگا۔ کیوں کہ ہماری تو سوچ ہی چھوٹی ہے۔ کسی پاکستانی کو تو اتنی بڑی فلم میں اتنے اہم رول میں ہم سوچ ہی نہیں سکتے۔ لیکن اس فلم میں رز کی اداکاری نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے اس کے بعد فلم کی کاسٹ میں خاص طور پر ان کا نام تلاش کیا۔ تو مجھے پتہ چلا کہ رز احمد بنیادی طور پر پاکستان نژاد برٹشر ہیں۔ لیکن رز احمد ہیں کون؟ انہوں نے یہاں تک کا سفر کیسے طے کیا؟
رز احمد کی خاص بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مختلف کرداروں میں آپ کو دکھیں گے۔ جیسن بورن کا ذکر اوپر میں نے کیا۔ اس کے علاوہ وہ سائنس فکشن سیریز اسٹار وارز میں بھی کام کر چکے ہیں۔ رز احمد نے پچھلے پانچ سال میں متعدد فلموں میں کردار بخوبی نبھائے ہیں۔ البتہ ان کے کریئر کا آغاز 2001 میں ‘دی روڈ ٹو گوانتنامو’ سے ہوا تھا۔ انھوں نے اس کے بعد ’اسٹار وارز‘ سیریز کی ‘روگ ون’ اور ’وینم‘ جیسی مقبول فلموں میں بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ رز احمد موسیقار بھی ہیں۔ بطور ریپر ان کی 2020میں ایک ایلبم بھی آئی تھی جو خاصی کامیاب رہی تھی
اب کچھ رز احمد کی ذاتی زندگی کے بارے میں جان لیتے ہیں؟
رز احمد کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔ لیکن وہ انگلینڈ میں ہی پیدا ہوئے۔ لندن میں ہی پلے بڑے۔ لیکن جس چیز نے انہے مضبوط بنایا اور لڑنا سکھایا وہ نسلی تعاصب تھا۔ جس کا انہے خود بھی سامنا کرنا پڑا اور جس کے خلاف وہ آج تک بھرپور آواز اٹھاتے ہیں۔ اور معروف برطانوی اخبار "گارجین”میں وہ اس حوالے سے بہت کھل کر لکھتے ہیں۔
مختصراً۔ رز احمد اور ان کی فلم ساونڈ آف میٹل کی کہانی۔ ایک جیسی ہی ہے۔ جس میں جدوجہد، ہمت، عزم اور ڈٹے رہنے کی سیکھ نظر آتی ہے۔
Discussion about this post