مسلم لیگ نون کی ترجمان اور رکن اسمبلی مریم اورنگزیب کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے اطلاعات کا اہم اجلاس آج ہوا۔ جس میں پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل موضوع بحث رہا۔ اس موقع پر نفیسہ شاہ نے کہا کہ حکومت اور فواد چوہدری کو سنا لیکن لگتا یہی ہے کہ حکومت خود کلیئر نہیں۔ جہاں تک بات فیک نیوز کی ہے تو اس میں قانون موجود ہے۔ ہم بحث کیسے کرسکتے ہیں، جب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔
اس موقع پر پاکستان براڈ کاسٹ ایسوسی ایشن کے نمائندے نے اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا۔ ان کے مطابق بڑا مشکل ہے نیت پر شک نہ کرنا، کیونکہ وزات اطلاعات نے کہا کہ زیادہ چینلز ملک کو غیر مستحکم کریں گے۔ بڑا مشکل ہے کہ نیت پر شک نہ کرنا، جب حکومت خود یہ کہے کہ پرنٹ میڈیا مرچکا ہے۔ پی بی اے کے مطابق جب حکومت یہ کہے کہ اشتہارات سوشل میڈیا کو دیں گے تو نیت پر شک نہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ نمائندہ پی بی اے کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ میڈیا و ڈی ریگولیٹ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی پیمرا کو کہا گیا تھا کہ خود مختار کام کرے۔ پیمرا کے نمائندے نے کہا کہ ثبوت موجود ہیں کہ کہا گیا کہ جو بل کو تسلیم نہ کرے، اس کے اشتہار روک دیے جائیں۔ ریگولیشن میں بہتری کے چانس ہمیشہ ہوتے ہیں۔ پی بی اے کے مطابق پیمرا اور پیکا کے اندر کیا تجاویز دینی ہیں، یہ بتانے کے لیے تیار ہیں۔
ریگولیٹری باڈیز کو ایک چھتری میں لانے کے بجائے موجود قوانین میں بہتری لائی جائے۔ اس سے قبل مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پہلے کہا گیا مسودہ ہے اور پھر کہا تجویز ہے۔ کیا کوئی مسودہ موجود ہے یا نہیں؟ یہ واضح کریں۔ اس موقع پر وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قانون موجود نہیں ہے۔ ابھی تک صرف فریم ورک تیار کیا گیا ہے۔ شراکت داروں سے مشاورت کا عمل مکمل ہوگا تو قانون کی شکل دی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ پی ایم ڈی اے کے حوالے سے کوئی آرڈینس نہیں آرہا۔ جس پر مریم اورنگزیب نے دریافت کیا کہ دنیا میں ایسی کوئی اتھارٹی ہے جہاں الیکڑونک، پرنٹ، سوشل میڈیا اور فلم سب ایک چھتری تلے ہوں؟ کسی بھی ملک میں ایک کمیشن اور اتھارٹی کے چھتری تلے سب نہیں ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد پرنٹ میڈیا کی ریگولیشن صوبائی معاملہ ہے۔ کیا پرنٹ میڈیا کی ریگولیشن کے لیے قومی اسمبلی میں ترمیم لائی جائے گی؟ اسمبلی میں ترمیم لانے کا مطلب 18ویں ترمیم میں تبدیلی ہے۔
پی ٹی آئی رکن اسمبلی کنول شوذب کا کہنا تھا کہ انہوں نے بطور احتجاج قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اطلاعات کو خط لکھا ہے کہ ذیلی کمیٹی دوبارہ بنائی جائے، چیئرپرسن جانبدار ہیں۔
Discussion about this post