04 اکتوبر2021 کو ملک بھر میں انٹرنیٹ ڈیڈ سلو ہونے اور سوشل میڈیا سروس چار گھنٹے تک بند رہنے سے لوگوں کو شدید کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب، ٹیلی گرام اور واٹس ایپ کو ابتدا میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر بند رکھا گیا لیکن بعد میں وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ پی ٹی اے نے وزارت داخلہ کی ہدایت پر سروسز کو بند کیا۔ حکومتی حلقوں کا موقف ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش سے شرپسند افراد کے رابطوں کو منقطع کیا جاتا ہے تاکہ امن و امان برقرار رکھا جا سکے البتہ ہمیشہ کی طرح عام شہریوں کو بھی موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کی بندش کے باعث آن لائن کاموں اور رابطوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں براڈ بینڈ صارفین کی تعداد 10 کروڑکے تاریخی سنگ میل پر پہنچ گئی ہے اور ملک کی 87 فیصد آبادی کو انٹرنیٹ اور براڈ بینڈ خدمات تک رسائی حاصل ہے۔ ایک معتبر ٹیک ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ 9 برسوں میں سینکڑوں بار ملک میں انٹرنیٹ سروس بند کی جا چکی ہے اور صرف گزشتہ سال ہی کم ازکم 12 مرتبہ یہ بندش دیکھنے میں آئی۔ خیال رہے کہ ہمارے ملک میں اب انٹرنیٹ محض سرچنگ، سرفنگ یا تفریح کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ بائیکیا، فوڈ پانڈا، اوبر اور کریم جیسی سروسز سے لے کر آن لائن تعلیم، طبی امداد اور روزگار کے لیے بھی استعمال ہو تا ہے اس لیے اس کی بندش بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی تصور کی جاتی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ماہرین کے مطابق کورونا وبا کے بعد ان کے 70 فیصد مریض ان سے آن لائن طبی مشورہ لیتے ہیں۔ صرف 30 فیصد مریض بالمشافہ مشورے کے لیے آتے ہیں۔ اسی طرح کورونا کے بعد سے ایک بہت بڑا طبقہ آن لائن ایجوکیشن پر انحصار کرنے لگا ہے۔ حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایک تاریخی فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ کہ انٹرنیٹ کا شٹ ڈاؤن نہیں ہونا چاہیے تاہم پی ٹی اے نے وہ فیصلہ چیلنج کر دیا تھا۔ 04 اکتوبر کے ٹھیک ایک ہفتے بعد یعنی 11 اکتوبر کے روز پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار اچانک سست پڑ گئی۔ ڈاون لوڈنگ تو دور صارفین ٹھیک سے سرفنگ بھی نہیں کر پارہے تھے۔ ایسے میں لگا جیسے حکومت نے ایک بار پھر سوشل میڈیا بند کردیا ہے لیکن اس بار وجہ مختلف تھی۔ ہوا یہ کہ 40 ٹیرابائٹ کی اہم ترین فائبر آپٹک کیبل متحدہ عرب آمارات کی ریاست فجیرا کے قریب خرابی کا شکار ہوگئی جس کے بعد انٹرنیٹ ڈیٹا کی ٹریفک کو دیگر کم گنجائش والی کیبلز پر منتقل کرنے میں گھنٹوں لگ گئے۔
زیر آب فائبر آپٹک کیبل آخر بار بار خراب کیوں ہوتی ہے؟
در اصل دنیا کا بیشتر مواصلاتی نظام انہی زیر سمندر فائبر آپٹک تاروں کے ذریعے چل رہا ہے، عام طور پہ لوگ سمجھتے ہیں کہ مصنوعی سیاروں یعنی سیٹلائٹس نے انٹرنیٹ کو پوری دنیا میں رواں دواں رکھا ہوا ہے جوکہ غلط ہے۔انٹرنیٹ کا دماغ اگر پوری دنیا کے ممالک میں پھیلے سرور ہیں تو اس کا جسم وہ پونے چار سو سے زائد ہیوی ڈیوٹی تاریں ہیں جو سمندروں کے نیچے بچھائی گئی ہیں۔ یہ فائبر آپٹک کیبلز ہی پوری دُنیا کو آپس میں جوڑنے کا سب سے بڑا ذریعہ کہلاتی ہیں۔ یہ کیبلز سلور یا کاپر کی بجائے اعلیٰ قسم کے شیشے یا پلاسٹک کی بنی ہوئی ہوتی ہیں جن کی بنیادی طور پر تین لیئرز ہوتی ہیں۔ سب سے اوپری حصے یعنی ربر کی تہہ کو کوَر کہا جاتا ہے، درمیانی حفاظتی تہہ کو کاڈلِک کہا جاتا ہے اور سب سے درمیانی تہہ جو چھوٹی چھوٹی کیبلز پرمُشتمل ہوتی ہے جو ڈیٹا کی ترسیل کے لئے مخصوص ہے، کو ’کور‘ کہتے ہیں۔ ’کور‘ میں بہت سی دوسری کیبلز کا سیٹ ہوتا ہے اور ہر کیبل میں سینکڑوں باریک شیشے یا پھر پلاسٹک کے ریشے ہوتے ہیں۔ یہ ریشے زیادہ سے زیادہ انسانی بال جتنا موٹائی رکھتے ہیں۔ روشنی اس کائنات کی تیز ترین چیز جس کی رفتار کم و بیش 3لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کُل فاصلہ12ہزار3سو73کلومیٹر ہے یعنی روشنی کی ایک رے پاکستان سے لیکر امریکہ تک کا سفر ایک سیکنڈ کے لاکھوں حصوں سے بھی پہلے طے کر لیتی ہے۔
ایک فائبر آپٹک کیبل بھی اسی طرح کام کرتی ہے۔ جب ہم کوئی پیغام بھیجتے ہیں تو وہ روشنی میں کنورٹ ہوکر فائبر آپٹک کیبل میں داخل ہوجاتا ہے اور جونہی یہ ڈیٹا اس کیبل میں داخل ہوگا روشنی کی رفتار سفر کرکے اپنی منزل تک جاپہنچے گا۔اس کیبل کو سمندروں کی گہری تہوں میں بچھایا جاتا ہے اور زیر زمین بھی مُختلف مشینری کے ذریعے گڑھے کھود کر دبا دیا جاتا ہے۔ سَمندروں میں اس انتہائی حساس اور مہنگی کیبل کو بچھانے کے لیئے ایک مخصوص شِپ کی ضرورت پڑتی ہے جس پر ایک طویل فیتہ نصب ہوتا ہے۔ اسی فیتے پر فائبر آپٹک کیبل لپیٹی ہوئی ہوتی ہے۔ پھر ایک کیبل لیور جس کو شپ سے باندھ کر سمندر میں گرایا جاتا ہے کیبل کھینچتا ہے اور سمندر کے فرش پہ ایک خاص ترتیب سے بچھاتا چلا جاتا ہے۔ جوں جوں شپ آگے بڑھتا ہے یہ لیور کیبل کو سمندر کی تہہ میں اتارتا جاتا ہے۔ یہ صرف اور صرف ہموار سمندری فرش پہ ہی قابل استعمال ہوتا ہے زیرِ سمندر پہاڑی چٹانوں پہ کیبل بچھانے کے لیے ایک اور برقی آلے کا استعمال کیا جاتا ہے جو پانی میں تیرتے ہوئے کیبل کو بچھاتا ہے۔
فائبر آپٹک تاریں کہاں کہاں ہیں؟
اس وقت دنیا میں درجنوں فائبر آپٹک تاریں زیر سمندر بچھی ہوئی ہیں جن کے ذریعے روزانہ اربوں میگا بائٹ ڈیٹا اِدھر سے اُدھر سفر کرتا ہے۔انہی تاروں نے دور جدید کے عالمی کاروباری،تجارتی اور معاشرتی نظام کو نہ صرف رواں دواں رکھا ہوا ہے۔ درحقیقت ان تاروں کو عالمی معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کہا جائے تو بجا ہو گا۔ایک رپورٹ کی رو سے 2025ء تک دنیا کے سمندروں میں بچھی تمام تاروں کی لمبائی ”آٹھ لاکھ میل“تک پہنچ جائے گی۔یہی تاریں غیرمرئی انٹرنیٹ کی بنیاد ہیں مگر عام لوگ ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔البتہ جب کوئی تار کٹ یا خراب ہو جائے تو تاروں کے اس وسیع وپُراسرارنظام کی بابت عوام خبریں سنتے اور واقف ہوتے ہیں۔ جیسے اگست 2017ء میں پاکستان کو انٹرنیٹ فراہم کرنے والی ایک زیر سمندر تار ”آئی۔ایم ای۔ڈبلیو ای جدہ،سعودی عرب کے نزدیک ٹوٹ گئی۔ نتیجے میں پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار بہت سست ہو گئی کیونکہ تار ٹوٹنے سے ڈیٹا کم موصول ہونے لگا۔جب تار جوڑی گئی، تبھی صورت حال بہتر ہوئی۔
ماہرین کے مطابق تاریں ٹوٹنے یا خراب ہونے کے 75فیصد واقعات کی ذمے دار انسانی سرگرمیاں ہیں۔کبھی مچھلیاں پکڑنے والے جہازوں کے جال میں پھنس کر تاریں ٹوٹ جاتی ہیں۔کبھی جہاز کا لنگر تار سے ٹکرا کر اسے خراب کر دیتا ہے۔ اس کے بعد قدرتی آفات تاروں پہ اثرانداز ہوتی ہیں۔مثلاً سمندری طوفان، زیر سمندر آنے والے زلزلے اور لینڈ سلائیڈز وغیرہ۔2006ء میں تائیوان کے نزدیک سمندر میں ایک بڑا زلزلہ آیا تھا۔اس نے علاقے میں پھیلی سات تاریں توڑ ڈالیں۔اسی بنا پر تائیوان،ہانگ کانگ،چین،جاپان،کوریا اور فلپائن میں انٹرنیٹ کی رفتار بہت متاثر ہوئی۔زیر سمندر تاریں اکثر خراب ہو جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے،تمام ممالک اپنی کمیونکیشن زیادہ سے زیادہ تاروں کے ذریعے بحال رکھتے ہیں۔اس روش کی حکمت یہ ہے کہ اگر ایک تار ناکارہ ہو جائے تو دیگر تاروں کی مدد سے کمیونکیشن برقرار رہے۔ ترقی یافتہ اور امیر ممالک تو سیکڑوں تاروں سے باہم منسلک ہیں۔اسی لیے وہاں کوئی زیرسمندر تار خراب ہو جائے تو عام لوگوں کو اس کی خبر نہیں ہوتی۔
انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی سےمتعلق مزید خبریں پڑھیں:
Discussion about this post