سمپورن سنگھ کالراجوگلزارکے نام سے دنیائے ادب میں منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ گلزارکی نظموں کاتازہ مجموعہ”چلولمحے چھیلیں“ پاکستان کے صریرپبلی کیشنزنے شائع کیاہے۔جس میں گلزارکی ایک سوایک نظمیں شامل ہیں۔ساتھ ہی ٹیگورکی نظموں کے تراجم پرمبنی گلزارکامجموعہ ”باغبان اورنندیاچور“ بھی صریرنے شائع کیاہے۔ گلزاربھارت میں ہی نہیں پاکستان میں بھی بہت مشہورہیں۔ خود گلزاردینہ جہلم میں پیداہونے کی وجہ سے پاکستان کی محبت کوکبھی اپنے دل سے نہ نکال سکے ۔ان کی شاعری میں بھی دینہ کابہت ذکرہے۔
اقبال نظرکی وقیع ادبی جریدے”کولاژ“نے چندسال قبل شاندار”گلزارنمبر“شائع کیاتھا۔جس میں ٹی وی پروڈیوسراورمصنف بختیاراحمد نے انتہائی خوبصورت خاکے میں ہمہ جہت گلزارکی تمام جہات کا خوبصورتی سے احاطہ کیاتھا،بختیاراحمدنے لکھاہے۔”لگتاہے خیال سے ماوراکوئی شخصیت ہے۔ہمہ پہلو ، ہمہ جہت۔شاعر،فلمساز،گیت نگار،افسانہ نگار،کہیں توکیاکہیں!کہ جوکچھ کہیں بجاہے۔ موصوف،بلکہ ہمہ صفت موصوف زمانہ قبل ازجنگ عظیم دوم1934ءمیں ماہ ِاگست کہ ہندمیں موسمِ بادوباراں ہوتاہے،کی اٹھارویں کے روزوادی جہلم کے علاقے ’دینہ‘ نامی قصبے میں اس بلاخیزدنیائے ہست وبودمیں تشریف لائے۔ابتدائی تعلیم دہلی میں پائی اورپھرعلاقہ اندھیری کی نگری بمبئے ، کہ فی زمانہ ممبئی کہلاتی ہے،کی فلمی دنیامیں ورودفرمایا۔چونکہ زمانہ قبل از’جلیبی بائی‘ میں فلمی دنیاسے وابستہ ہوئے تھے،لہٰذاعلم وادب کی شمع جلائے رکھی۔گلزارصاحب ’شیلاکی جوانی‘ سے مزین فلموں کے بجائے’معصوم‘ سی فلمیں بناتے ہیں۔وہ فلمی مسودات کی نصف سنچری مکمل کرچکے ہیں ۔ان دنوں گلزاربہت آرام سے تھے،جن دنوں فلم’آنند‘ لکھی ہوگی۔فارغ ہوکر ’گڈی ‘ لکھی۔پھرانہوں نے ’باورچی ‘ ڈھونڈ نکالا۔ دوستوں کی خوب خوب دعوتیں کی ہوں گی جن میں حسبِ دستورِزمانہ کوئی’نمک حرام‘ بھی نکلاہوگا۔اس صدمے پر’خاموشی‘ اختیار کرلی،پھرکوئی نیا’انداز‘ سوجھ گیا۔یوں سمندرکنارے جاکر’گھروندا‘ بناڈالا۔بھلاصحافت کامیدان ان سے کیونکربچ سکتاتھاسو’نیو دہلی ٹائمز‘لکھ ڈالی۔ ہدایتکاری کی ابتدا’میرے اپنے‘سے کی اور’آندھی‘کی صورت’موسم‘ میں نئی رتیں تراشتے رہے۔ یوں انہیں’خوشبو‘ سے لطف اندوزہونے کاموقع مل گیا۔ خوش قسمتی سے’اچانک‘ انہیں’کنارا‘ مل گیا۔’میرا‘ سے بھی ملے۔’پریچے‘ کے بعدکھٹے نہیں میٹھے’انگور‘لوگوں کوکھلائے۔پتہ نہیں کس ہستی سے’اجازت‘ لے کرانہوں نے ’لباس‘ زیب تک کرلیا۔ مزیدایک فلم’لیکن ‘ کی ہدایات بھی دیں۔پھرسماج کو ’ماچس‘ دکھاکرسماج پرتھوتھوکرتے ہوئے’ہوتوتو‘کوبھی ہدایت یافتہ کردیا۔ موصوف نے دودستاویزی فلمیں دوباکمال فنکاروں’سرودنواز استادامجدعلی خان‘ اور’کلاسیکی گلوکارپنڈت بھیم سین جوشی‘ پربنائیں۔’غالب‘ پرتوسیریل بنایاہی تھااوروں کوبھی نہیں بخشااور’کردار‘ کے عنوا ن سے ہندوستان کی مختلف زبانوں کی تحریروں کوٹی وی پرروشناس کرایا۔منشی پریم چندکے افسانوں کوبھی ٹی وی ناظرین سے متعارف کرایا۔سات بارگلزارنے قومی ایوارڈکواعزازبخشا۔ان کی دستاویزی فلموں پرایوارڈدیے گئے۔بچوں کی کتاب ’ایکتا‘ پر ایوارڈحاصل کیا۔
گلزارنے جس شعبے میں ہاتھ ڈالا،اس میں اپنی انفرادیت کی چھاپ چھوڑی۔ان کی شاعری کی پہلی کتاب”جنم“نے1962ءمیں جنم لیا ۔”کچھ اورنظمیں“کے بعد”چاندپکھراج کا“زمین پراتارا۔انہوں نے شاعری میں نئی صنف ”تروینی ‘ متعارف کرائی۔پھر”رات پشمینے کی“ ،”پلوٹو“،”یارجلاہے“،”پندرہ پانچ پچھہتر“،”تروینی“ دوکلیات”بال وپرسارے“ اور”غزلیں، نظمیں گیت تروینی“ کے علاوہ بھی کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ نثرمیں مختصرافسانہ ، ناول ، خاکہ نگاری پران کی کتابیں شائع ہوئیں۔افسانوں کاپہلامجموعہ ”چورس رات“1963ءمیں شائع ہوا۔پھرکئی برس بعد ”دستخط“،”دھواں“ اورڈیوڑھی“ منظرعام پرآئے۔ایک ناول ”دولوگ“بھی تقسیم کے موضوع پرلکھا۔ایک ایساقیامت خیزسانحہ جوگلزارپربیتا۔وہ جوایک سرزمین تھی ،دوحصوں میں بٹ گئی اوراس کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے باٹانہیں جاسکتاتھا اورجس نے شب بھرمیں لاکھوں افرادکورفیوجی بنادیا۔ لگ بھگ ایک سے ڈیڑھ کروڑلوگ۔۔مرد،عورتیں،بچے،جوان اور بوڑھے ایک ایسی تقدیرکے سبب بے گھرہوگئے تھے جس کاانتخاب انھوں نے خود نہیں کیاتھا۔اس تقسیم کے ہمراہ خون کی جوہولی کھیلی گئی ،اس میں کم و بیش بیس لاکھ افرادکی جانیں گئیں۔ تقسیم کایہ المیہ گلزارکبھی نہ بھلاسکے اوران کی نظم ونثرمیں اس کاذکرکثرت سے ملتاہے۔ شخصی خاکوں،مضامین اورنظموں کامجموعہ ”گریادرہے“ سامنے آیا۔ ” چلو لمحے چھیلیں ” کا یہ عنوان گلزار کی انفرادیت کا آئینہ دارہے۔یہ عنوان اسی نام کی نظم سے لیاگیاہے۔نظم ملاحظہ کریں۔
چلولمحے چھیلیں!
کسی ایک لمحے کوروکیں
گُزرتے ہوئے وقت سے توڑلیں
تم لبوں پہ رکھو،میں زباں سے اُٹھالوں
وہ لمحہ نگل لیں
چلو لمحے چھیلیں!
اُتاریں ہتھیلی پہ،پھونکیں اُسے ،اوررکھ کے
سُلگتے ہوئے جسم میں،
وہ لمحہ جلادیں۔۔
چلولمحے چھیلیں!
مروڑیں اُسے،اُنگلیو ںمیں لپیٹیں،اُڑائیں
ستاروں کی ڈھیری میں ڈھک دیں!
کبھی چھیل کر،ایک لمحے میں جھانکو،
تواُس میں بھنور،جیسی نابھی ملے گی
تمہیں کال کی۔۔
جہاں سے وہ لمحہ چلاتھا
وہیں پہ ڈبودیں؟
چلولمحے چھیلیں۔۔
گلزارکے لفظ،استعارے اورامیجری اس کی اپنی ہے۔فکرانگیزکیفیات کووہ منفردمصرعوں کی شکل میں بیان کرتاہے۔کیاوقت کوکوئی روک سکا ہے۔وقت کاسفرتوہرصورت،ہرلمحہ ،ہرآن جاری وساری رہتاہے۔وقت کی روانی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ایک بہت عمدہ خیال کو گلزارنے خوبصورتی سے الفاظ کاجامہ پہنایاہے۔گلزارصاحب کوجب بھی دیکھوبڑے دھلے دھلائے،نکھرے نکھرے نظرآتے ہیں ۔بالکل ایسالگتاہے جیسے ابھی ابھی نہاکے،کپڑے بدل کے ،کنگھاکرکے آرہے ہیں۔کپڑے سفیداورسادہ۔ چائنیز کالر کا کرتا جوگھٹنوں تک نہیں پہنچتامگربہت اکڑا ہواہوتاہے۔پتانہیں کلف سے یاگلزارکے جسم پرہونے کے غرورسے۔سیدھاپاجامہ،جس کی موہری علی گڑھ والوں کی طرح نہ چھوٹی ہوتی ہے،نہ لکھنو والوں کی طرح پھیلی ہوتی۔ سنہری کام کی پنجابی جوتیاں جنہیں کھسے کہا جاتاہے۔سنہری فریم سے جھانکتی ہوئی آنکھیں اورہونٹوں کے اوپرایک شفیق مسکراہٹ جس کے نشان چہرے کے دونوں طرف جم گئے ہیں ۔ کھچڑی بال جن میں اب چاول زیادہ دال کم دکھائی دیتی ہے اورہاں وہ نہایت سفیدمونچھیں،جن کے بغیرگلزارکاسراپامکمل نہیں ہوتا۔ منہ میں دانت بھی ہیں جوخاص خاص موقعوں پرنظرآتے ہیں۔
گلزاراردوکے عاشق ہیں اوران کابیشتروقت اسی محبوبہ کے ساتھ گزرتاہے۔کتابوں،مسودوں اورخاموشی سے مہکتاان کاوہ کمرہ گواہ ہے کہ وہاں ایک عاشق نے اپنی معشوق کے خمِ کاکل کی آرائش کس کس طرح کی ہے۔نظم ”کسی موسم کاجھونکاتھا“ کے چندمصرعے ملاحظہ کریں اور گلزارکی امیجری کے جادوکاشکارہوجائیں۔
دوپہریں ایسی لگتی ہیں
بنامُہروںکے خالی خانے رکھے ہیں
نہ کوئی کھیلنے والاہے بازی،اورنہ کوئی چال چلتاہے
نہ دن ہوتاہے اب،نہ رات ہوتی ہے
سبھی کچھ رُک گیاہے
کسی موسم کاجھونکاتھا
مِری دیوارپرلٹکی ہوئی تصویرترچھی کرگیا ہے
گلزارکے پاس اظہارکے لیے مختلف زبانوں کااتناوافرذخیرہ الفاظ موجود ہے جن کے ساتھ دلِ دردمندکے سبب ان کی ہرتخلیق سانس لیتی ہوئی اورزندگی سے بھرپورنظرآتی ہے ،وہ بڑی آسانی سے کسی ماحول کی ایسی تصویرکھینچ کررکھ دیتے ہیں جس سے متعلقہ ماحول قاری کی نظر میں پھرجاتاہے۔
ان کی لفظیات میں اردو،بنگالی،فارسی،پنجابی،ہندی اورانگریزی اس خوبصورتی سے ٹانکے جاتے ہیں کہ لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ گلزار مصوربھی ہیں لیکن ان کاقلم بھی موقلم معلوم ہوتاہے۔احساسات اورکیفیات رقم کرنے میں انہیں کمال مہارت حاصل ہے۔ گلزار صاحب کی تخلیقی رعنائیاں،ان کابے پناہ بلندتخیل،چونکانے والی لسانی فضا،محبت اورانسان دوستی اوران سب کے بہت لطیف ایکسپریشن رنگین ریشم کی طرح ان کے تمام کام میں اس طرح بکھرے ہوئے ہیں کہ ان کویکجاکرنااوران کااحاطہ کرناآسان نہیں ہے۔ ” چلو لمحے چھیلیں” میں اپنے فن کے عروج پر نظر آتے ہیں۔
Discussion about this post