دیکھا جائے تو ہم سب پاکستانیوں کو میاں چنوں کے نوجوان ارشد ندیم کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ انہوں نے ایک ایسے کھیل جیولین تھرو میں پاکستانیوں کی دلچسپی بڑھائی جو گزشتہ پانچ چھ دنوں سے پہلے اہل وطن میں سے بہت کم لوگ واقف ہوں۔ ٹوکیو اولمپکس کے آغاز سے ہی ہر کوئی پاکستانی دستے سے رتی برابر امید نہیں لگائے بیٹھا تھا۔ پہلے طالب طلحہ نے ویٹ لیفٹنگ میں امیدوں کے چراغ روشن کیے اور ہار کر بھی ہیرو بن گئے اور پھر جیولین تھرو ارشد ندیم نے فائنل مقابلے تک رسائی کی تو ہر جانب ان کی دھوم مچی تھی۔ ہفتے کی شام سب کی نگاہیں ٹی وی اسکرین پر جمی ہوئی تھیں۔جو جیولین تھرو کے بارے میں جانتے تک نہیں تھے، وہ اس کھیل کے ایک ایک اصول سے چند لمحوں میں واقف ہوتے گئے۔ سنسنی خیزی ایسی تھی، جیسے پاک بھارت کرکٹ مقابلوں میں ہوتی ہے اور اِس میں اُس وقت اور جوش بڑھ گیا جب پاکستانی تماشائیوں کے علم میں یہ بات آئی کہ اس فائنل راؤنڈ میں بھارت کے نیرج چوپڑہ بھی نبرد آزما ہورہے ہیں۔

فائنل راؤنڈ کے مراحلے
ابتدا میں 12 کھلاڑیوں نے جیولن تھرو پھینک کر اپنی صلاحیتیں دکھائیں، جس کے بعد ارشد ندیم میدان میں آئے اور شاندار کارکردگی سے اگلے مرحلے تک پہنچ گئے۔ جس میں ارشد ندیم نے82.4میٹر دور نیزہ پھینک کر امید کے دیے روشن روشن کیے، جبکہ ان کی دوسری تھرو فاؤل قرار پائی۔ تیسری
84.63 دور تک جا کر گری۔ ان سب کے درمیان بھارت کے نیرج چوپڑہ جنہوں نے پہلے ہی مرحلے میں اپنا نیزہ 87.5میٹر تک پہنچایا تھا، درحقیقت یہی ان کے طلائی تمغے کی وجہ بن گیا، جبکہ ارشد ندیم نے مجموعی طور پر 5ویں پوزیشن حاصل کی۔ یوں 29سال گزرنے کے باوجود ہر بار کی طرح پاکستانی دستہ اولمپکس مقابلوں میں خالی ہاتھ ہی وطن لوٹ رہا ہے۔
ارشد ندیم کی ناکامی کیا وجہ؟
ایک عام تاثر یہی ہے کہ ارشد ندیم حکومتی سرپرستی کے بغیر تن تنہا اس کھیل میں آگے بڑھتے رہے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ پسماندہ علاقے میاں چنوں میں ارشد ندیم کس طرح جیولین تھرو کی پریکٹس کرتے ہوں گے۔ کون لوگ ان کی مدد کرتے ہوں، کیسے وہ بین الاقوامی جیولین تھرو کی طرح اپنی خوراک اور ایکسائز کا خیال رکھتے ہوں۔ اولمپکس ایسوسی ایشن سارا سال خواب خرگوش کے مزے لوٹتی ہے اور چند دن پہلے جاگ کر بس گنتی پوری کرنے کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب کرتی ہے۔ طلائی تمغہ حاصل کرنے والے نیرج چوپڑہ سے ان کا مقابلہ کیا جائے تو ارشد ندیم انہیں دستیاب سہولیات کے اعتبار سے ان سے خاصے فاصلے پر ہیں۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ اولمپکس سے قبل نیرج چوپڑہ نے یورپ جا کر باقاعد ہ ٹریننگ کی۔ اس لحاظ سے ارشد ندیم کی 5ویں پوزیشن بہت بڑی کامیابی تصور کی جانی چاہیے۔
دلوں اور سوشل میڈیا پر ہیرو بن گئے
ارشد ندیم ہار کر بھی ہیرو بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے نام کا ٹرینڈ ٹاپ ٹین میں سرفہرست ہے۔ صارفین نے ارشد ندیم کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اکثریت کا کہنا ہے کہ جیت ہار ایک طرف، ارشد ندیم کی وجہ سے پاکستان اولمپک گیمز تک فائنل تک پہنچا اور موضوع بحث بنا۔ کچھ صارفین پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے طرز عمل پر بھڑک اٹھے ہیں۔ بالخصوص صدر عارف حسن پر جو گزشتہ 17برس سے پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے صدر ہیں اور آج تک ان کی صدارت میں ایک طلائی تمغہ بھی کوئی کھلاڑی گلے میں نہیں سجا سکا۔ جبکہ ٹو کیو اولمپکس میں کھلاڑیوں سے زیادہ آفیشلز کے جانے پر بھی کئی آگ بگولہ ہیں۔صارفین کا کہنا ہے کہ وزرا اور سیاست دان میچ سے پہلے سے دھڑا دھڑ مبارک باد کے پیغامات دے رہے تھے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کھیل کی بہتری کے لیے لفظی جمع خرچ کے بجائے باقاعدہ کیسے کام کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے ارشد ندیم کی غیر معمولی کارکردگی سے۔ بیشتر اس بات پر متفق ہیں کہ بین الاقوامی معیار کی سہولیات دی جائیں تو نتائج کچھ اور ہوں۔
Discussion about this post