شاہ ولی اللہ نے کہا تھا کہ جس مقتول کا قاتل کوئی نہ ہو اسکا قاتل درحقیقت حکمراں ہوتا ہے، اگر یہ منطقی کلیہ درست مان لیا جائے تو سوچیں، الامان الحفیظ، مگر اقتدار کی سوچ مختلف ہوتی ہے، طاقت کا نشہ بے لگام گھوڑے کی طرح ہوتا ہے جو سموں تلے کچلے جانیوالے جاندار اور بے جان مخلوق کی اذیت نہیں جانتا۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ میدان جنگ کے بعد سب سے زیادہ قتل عدالت کے کٹہرے میں ہوئے اور ظلم ۔۔۔۔ ایک اور ناظم جوکھیو طاقت کی صلیب چڑھ گیا، دھابیجی کے غریب رہائشی ناظم کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے ایک قانون ساز کو قانون کے بارے میں بتایا، ایک طاقتور وڈیرے، صوبائی اسمبلی کے رکن جام اویس کو بتایا کہ اس علاقے میں شکار غیر قانونی ہے اور پھر اغوا کر لیا گیا، بھیانگ تشدد کا شکار بنایا گیا، دو دن بعد لاش مل گئی۔ وزیر، مشیر، اپوزیشن تعزیت کیلئے پہنچی شاید شور تھم جائے، پہلے گارڈز گرفتار کیے گئے، دو دن بعد محترم رکن اسمبلی کو بھی تھانے میں پیش ہونا پڑا۔ انصاف کیلئے آواز اٹھنا بند نہ ہوئی تو وزیر اعلیٰ سندھ نے نوٹس لیا، وزیر اعظم نے بھی نوٹس لیا۔ اب تو یقین آ جانا چاہیے کہ انصاف ہو گا۔ عدالت کی نظر میں امیر، غریب، چھوٹا، بڑا سب برابر ہونگے، یہی کچھ آئین میں لکھا ہے، یہی ہمارا مذہب بتاتا ہے۔ اب تو یقین آ جانا چاہیے کہ انصاف ہو گا مگر یہ کم بخت یقین قابو میں ہی نہیں آتا، یہ یقین بھی بڑا سرکش ہے ، توہین عدالت سے بھی ڈرایا مگر ماننے پر تیار ہی نہیں ہے۔
Nazim Jokhio last video before he killed #JusticeForNizamJokhio pic.twitter.com/fybJZEzpZK
— Mukhtiar Ahmed Mirani (@mukhtiarmiranii) November 4, 2021
بلوچستان کی گرمی اور جون کا مہینہ، اگر میری یادداشت درست ہے تو جون 2017 کی تپتی دوپہر ٹریفک کانسٹبل عطا اللہ روز کی طرح کوئٹہ کے چوک پر فرائض انجام دے رہا ہے۔ اچانک ایک تیز رفتار دیو ہیکل گاڑی بیچارے ٹریفک کانسٹبل کو کچل ڈالتی ہے۔ سیاسی رہنما اور سابق رکن اسمبلی مجید اچکزئی گرفتار بھی ہوئے، مقدمہ بھی چلا، میڈیا پر خبریں بھی آئیں، اس المناک حادثے کو درجنوں افراد نے دیکھا۔ عطااللہ کے گھر والوں کو بھی یقین تھا کہ انصاف ہر حال میں ملے گا، مگر مجید اچکزئی کچھ عرصے بعد بری کردیے گئے، ظلم کے قہقہے اور عدل منہ تکتا رہا۔ لاہور کا زین قتل بھی یادداشت کے سرد خانے میں موجود ہے، شاید 2015 نومبر کا مہینہ، کیولری گرائونڈ رات کا وقت، دو گاڑیوں کی ٹکر ہو جاتی ہے، بڑی گاڑی میں طاقت کا نمائندہ مصطفیٰ کانجو نکلتا ہے اور بھری سڑک پر فائرنگ کر کےسولہ سالہ کے طالبعلم زین کو قتل کر دیتا ہے۔ کانجو پنجاب کا بڑا سیاسی خاندان، صدیق کانجو سابق وزیر مملکت رہے ہیں۔
پورے ملک میں بہیمانہ قتل پر شور مچتا ہے، اس وقت کے وزیر اعلیٰ خادم پنجاب شہباز شریف نے گھر جا کر دکھ بھرے لہجے میں انصاف کی یقین دہانی کروائی۔ تمام گواہ معجزانہ طور پر منحرف ہو گئے، دکھ بھری ماں نے عدالت میں بیان دیا بیٹا قتل ہو گیا مگر میری دو بیٹیاں ہیں اور مجھے اسی شہر میں رہنا ہے۔ انصاف ہوتا ہے تو نظر بھی آتا ہے، مصطفیٰ کانجو اور چار ساتھی بری ہو گئے، ظلم عدل کو ٹھینگا دکھاتا رہا۔
عام شہری تو ایف آئی آر کٹوانے کی ہمت نہیں کر سکتا بھلا انصاف جیسی نایاب اور مہنگے ترین نظام تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ عدالتوں میں لگ بھگ بیس لاکھ مقدمات فیصلوں کے منتظر ہیں، ورلڈ جسٹس پروجیکٹ انڈیکس میں 126 ممالک میں پاکستان کا نمبر 117 ہے، بس یوں جانیں کہ زمبابوے سے نیچے اور بولیویا اور افغانستان سے ذرا اوپر، افتخار چوہدری اور ثاقب نثار جیسی زور آور عدلیہ کے سربراہ رہے مگر نظام عدل کو بہتر بنانے کی کوشش ان کے ایجنڈے کا حصہ نہ بن سکی، سو عوام آج بھی انصاف سے محروم ہیں۔ توہین عدالت کے خوف کے خوف کا شکار معاشرہ یہ سوال کرنے کا بھی مجاز نہیں کہ نظام عدل کون سدھارے گا؟ ناانصافی کا ذمہ دار کون ہے؟
انگریزی کہاوت ہے کہ انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار، اس سے بڑی ناانصافی کیا ہو گی کہ ستر سال میں ہم انصاف کا نظام نہ بنا سکے۔ کراچی کے پوش علاقے میں شاہزیب کا قتل، بڑا شور مچا، قتل ہوتے بہت سارے لوگوں نے دیکھا، نو سال ہو گئے قاتل شاہ رخ جتوئی مجرم بھی قرار دیا گیا مگر یہ کیس اب بھی ختم نہ ہو سکا، چونکہ قاتل کا تعلق بڑے طاقتور گھرانے سے ہے۔ نقیب اللہ قتل کیس کون بھول سکتا ہے، تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی، سہراب گوٹھ پر دھرنے میں عمران خان بھی شریک ہوئے، انصاف کی دہائی دی، قتل کا الزام کراچی کے طاقتور ترین پولیس افسر راؤ انوار لگایا گیا۔ چار سال گزر گئے، نقیب اللہ کا باپ انصاف کی راہ تکتے اپنے رب سے جا ملا، نقیب اللہ کی بیوی اور معصوم بچیاں کو آج تک یہ یقین نصیب نہ ہوا کہ انصاف ملے گا۔ دادو کی ام رباب چانڈیو، جس کے دادا، باپ اور چچا قتل کردیے گئے، قتل کا الزام پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی سردار چانڈیو اور ساتھیوں پر ہے، ام رباب چانڈیو، ننگے پائوں عدالتوں کے چکر لگا رہی ہے، اسے اب بھی یقین ہے انصاف ملے گا۔
اسلام آباد رات گئے اپنی گاڑی میں جاتا اسامہ ستی، جسے پولیس پارٹی نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ لاہور کی خدیجہ صدیقی کو کون بھول سکتا ہے، طاقتور وکیل کے بیٹے کا بہیمانہ تشدد، مقدمہ بھی چلا، دلائل بھی دئیے گئے مگر انصاف نظام عدل کٹہرے میں سوالیہ نشان کی طرح بے بس دیکھتا رہا۔ سانحہ ساہیوال، ماڈل ٹائون کے مقتولین، موٹروے کیس، اے ٹی ایم کیمرے کو منہ چڑھاتا، پولیس کے ہاتھوں قتل ہونیوالا صلاح الدین، کس کس کا ذکر کیا جائے، بڑی طویل فہرست ہے۔ انصاف کے کٹہرے میں عدل کا قتل ہوتے ہم سب دیکھتے ہیں، ناظم جوکھیو، عطااللہ، زین، شاہزیب، صرف چند نام، چند چہرے، چند خاندان، انصاف کا دامن تھامے بیگناہ مقتولین کے انگنت خاندان پورے معاشرے کیلئے سوالیہ نشان ہیں۔ حکمراں نظام کے دامن پر بیشمار مقتولین کے لہو رنگ چھینٹے دور سے نظر آتے ہیں۔
عطاالحق قاسمی صاحب کے دعوت فکر دیتے ہوئے چند شعر پیش خدمت ہیں۔
خوشبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چاہیے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہیے
ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم
جگنوؤ ں کو راستہ تو یاد ہونا چاہیئے
خواہشوں کو خوبصورت شکل دینے کیلئے
خواہشوں کو قید سے آزاد ہونا چاہیئے
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیئے
Discussion about this post