پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے بغیر پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نے ایک بار پھر اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اسلام آباد میں لگ بھگ ساڑھے 3 ماہ بعد بڑی بیٹھک لگالی ہے۔ ماضی میں یہ حکومت مخالف اتحاد، عمران خان کے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ اور دھاندلی کے شور شرابے اور جھوٹے مقدمات دائر کرنے پر پاکستان کے کئی شہروں میں جلسے جلوس کرچکا ہے، یہاں تک کہ پی ڈی ایم نے ایوانوں سے استعفے دینے کی بھی صدائیں لگائی تھیں لیکن اس مرحلے پر انہیں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی شراکت داری سے محروم ہونا پڑا۔
دونوں جماعتوں کا مؤقف تھا کہ مستعفیٰ ہوئے بغیر وہ ایوان میں پی ٹی آئی حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتے ہیں۔ دونوں جماعتوں اور پی ڈی ایم میں استعفیٰ دینے کے معاملے پر ایسے اختلافات جنم لیے کہ راہیں ہی جدا ہوگئیں۔ پی ڈی ایم اپنی پہلی اننگ کی ناکامی کے بعد اب دوسری کی تیاری کررہی ہے اور نظر یہی آرہا ہے کہ اس بار وہ وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ سے زیادہ ہوشربا مہنگائی پر عوامی ہمدردی حاصل کرکے ایک نیا قدم اٹھانے جارہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کے درو دیوار ہلانے میں اب تک ناکام پی ڈی ایم اس نئے کھیل میں کس حد تک کامیاب ہوگی؟ جہاں اپوزیشن کے ہر حملے کا تابڑ توڑ جواب دینے کے لیے وزرا، مشیران اور معاونین خصوصی ہر گزرتے لمحے میں سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر بیان بازی کا میدان برپا کرتے ہیں۔

اب پی ڈی ایم کا لائحہ عمل کیا ہے؟
آر یا پار کی گردان لگانے والی پی ڈی ایم اب پھر سے سڑکوں پر تو ہوگی لیکن وزیراعظم کے استعفے سے زیادہ مہنگائی اس کا موضوع ہوگا۔ جب ہی تو اجلاس کے بعد اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ہمیشہ کی طرح دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کریں گے۔ اس سلسلے میں 29 اگست کو کراچی میں جلسہ کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔ جب کہ اس سے پہلے 21 اگست کو پی ڈی ایم کی اسٹرینگ کمیٹی کے اجلاس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ حکومت کے خلاف یہ احتجاج کس پیمانے اور کس انداز میں کیا جائے گا۔ جس میں اگلے اقدامات کی بھی باہمی مشاورت سے توثیق کی جائے گی۔
مولانا فضل الرحمان کا جارحانہ رویہ برقرار
اجلاس کے بعد ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان کی توپوں کا رخ حکومت کی طرف ہی رہا۔ جنہوں نے ایک بار پھر وہی بیانیہ دہرایا جو ان کی پریس کانفرنسز اور جلسوں کا موضوع رہا ہے اور وہ صرف یہ تھا کہ حکومت داخلی اور خارجی محاذ پر بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ پاکستان کمزور خارجہ پالیسیوں کے باعث عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ مولانا نے ووٹنگ مشین کو دھاندلی کا آسان طریقہ خیال کیا جب کہ ایک بار پھر انہوں نے2018کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام حکومت پر لگایا۔ ہاں ایک بات ضرور تھی کہ مولانا فضل الرحمان کو احساس ہوگیا ہے کہ اب عوامی مسائل کی جنگ لڑی جائے، ممکن ہے کہ اس میں ایک عام آدمی کی حمایت بھی ہوجائے، جو ہر چیز کے بڑھتے داموں سے حکومت پر تنقید کیے بغیر نہیں رہتا۔
شہباز شریف کا وہی جواب
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی کہہ دیا کہ نواز شریف لندن میں علاج مکمل کرائے بغیر واپس نہیں آئیں گے۔ حکومت پھر نواز شریف کی بیماری پر سیاست کر رہی ہے۔ شہباز شریف کی رائے سے مولانا فضل الرحمان نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود بھی یہی چاہتے ہیں کہ نواز شریف پاکستان نہ آئیں۔
کیا پی ڈی ایم اس بار کامیاب ہوجائے گی؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مہنگائی کے موضوع پر پی ڈی ایم عوام کو تو اکٹھا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے لیکن ماضی میں ہونے والے پی ڈی ایم کے عظیم الشان جلوسوں سے حکومت پر کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑا۔ حکومتی ترجمانوں نے اُن جلوسوں اور جلسوں کو ’شغل میلہ‘ قرار دے کر اپوزیشن پر طنز کے نشتر چلائے تھے۔
وفاقی وزیر شیخ رشید کا یہ بیان بھی قابل ذکر ہے کہ جلسے جلوسوں سے کوئی حکومت گرتی نہیں ہے، یقینی طور پر وہ پی ٹی آئی کے ڈی چوک پر ہونے والے 3 مہینوں تک جاری رہنے والے دھرنے کے تناظر اور تجربے کے مطابق ہی یہ بیان دیتے رہے ہیں۔
دوسری جانب پی ڈی ایم خود تذبذب کا شکار ہے کہ وہ نئے احتجاج کا ایجنڈا مہنگائی تو رکھے گی لیکن اصل مقصد حکومت گرانا ہے کہ نہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم صرف اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے سڑکوں پر آرہی ہے۔ اگر پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اکٹھا ہو کر آزاد کشمیر کے انتخابات میں حصہ لیتیں تو ممکن ہے کہ آج وہاں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہوتی۔ پی ڈی ایم کو طے کرنا ہوگا کہ کیا ان کا اتحاد صرف جلسے جلوسوں کے لیے بنا ہے؟تجزیہ کاروں کے مطابق پی ڈی ایم کے ذہن میں اب ڈیڑھ دو برس بعد ہونے والے انتخابات ہیں اور یہ سب کچھ اسی کی ’ڈریس ریہرسل‘ کہی جاسکتی ہے۔ اگر اس بار پی ڈی ایم کا ’ون پوائنٹ ایجنڈا‘ مہنگائی ہوا تو ممکن ہے کہ وہ حکومت کو مجبور کرسکیں کہ وہ مہنگائی کے طوفان کو مزید پھیلنے سے روکیں۔

بلاول بھٹو کی پیشکش
اس سارے تناظر میں بلاول بھٹو زرداری نے حکومتی حلقوں میں یہ بیان دے کر ہلچل مچادی ہے کہ اگر اپوزیشن مل کر پہلے بزدار اور پھر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے تو حکومت کو گرانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیان اس جانب بھی اشارہ ہے کہ پیپلز پارٹی اب بھی حکومت کے خلاف جنگ سڑکوں پر نہیں ایوان میں لڑنے کی خواہش مند ہے۔ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدوں تک کی پیشکش کردی ہے۔ جس پر ن لیگ نے مرکزی قیادت سے صلح مشورہ کرکے اس پیشکش کے جواب کے لیے وقت مانگا ہے۔
Discussion about this post