سفید فام قوم پرست کینیڈین سیاست دان مکسیم برنئیر کے خلاف مقامی صحافی احتجاج کررہے ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ سیاست دان اُنہیں ہراساں کررہے ہیں اور کارکنوں کو اس بات پر اکسا رہے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے 3صحافیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اِن صحافیوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے سی ٹی وی نیوز، گلوبل نیوز اور ہل ٹائمز کے پلیٹ فارم کی نمائندگی کرتے ہوئے سفید فام قوم پرست جماعت پیپلز پارٹی کے نسل پرستانہ رویے پر سوال اٹھائے تھے۔ جس پر اس جماعت کے مرکزی رہنما مکسیم برنئیرآگ بگولہ ہوگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان 3میں سے 2خواتین صحافی شامل ہیں۔
صحافیوں کو کس طرح ہراساں کیا گیا؟
حال ہی میں مکسیم برنئیر نے بذریعہ ٹوئٹ مین اسٹریم نیوز آؤٹ لیٹس کے تینوں صحافیوں کو ’بے وقوف ‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ ساتھ ہی تینوں کے ای میلزلکھ کر کہا کہ اگر یہ گندا کھیلنا چاہتے ہیں تو ہم بھی گندا کھیلیں گے۔اُن کے مطابق اُن کے فالورز انہیں ای میل روانہ کرکے اِن کے گھٹیا شعبے کی اوقات یاد دلائیں۔ جس کے بعد ٹوئٹر نے پیپلز پارٹی آف کینیڈا کے رہنما میکسم برنیئر سے مطالبہ کیا تھا کہ شرانگیز ٹوئٹ کو ہٹائیں، جس سے صحافیوں کی توہین کی گئی ہے۔نسل پرست سیاست دان کے اس ہراساں کرنے والے ٹوئٹ کے جواب میں کینیڈین ٹوئٹر کمپنی نے 12گھنٹے کے لیے م مکسیم برنئیر کا اکاؤنٹ بلاک کردیا۔ ٹوئٹر کینیڈا کے ترجمان کے مطابق کمپنی نے اپنی معلومات کی رازداری کی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر برنیئر کے اکاؤنٹ کے خلاف یہ کارروائی کی۔اکاؤنٹ کو اُسی وقت فعال کیا گیا جب کینیڈین سیاست دان نے ٹوئٹ ہٹائے۔مکسیم کے اس شر انگیز بیان پر پیپلز پارٹی نے کینیڈی ذرائع ابلاغ نے رابطہ کیا، جس پر اُنہوں نے تبصرہ کرنے سے معذرت کرلی۔
کینیڈین ایسوسی ایشن آف جرنلسٹس کا فوری ردعمل
کینیڈین ایسوسی ایشن آف جرنلسٹس نے ملک کے متعدد صحافیوں کے خلاف کی جانے والی حالیہ اس دھمکی کو سنجیدگی سے لیا اور حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے پر کارروائی کریں۔ سی اے جے کے بیان کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران درجنوں رپورٹرز، جن میں خواتین، سیاہ فام اور غیر مقامی صحافی شامل ہیں، اُنہیں سوشل میڈیا پر دھمکی آمیز ای میلز اور پیغامات موصول ہورہے ہیں۔ جن میں تشدد، جنسی حملے، ہراساں کرنے اور قتل تک کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یہ سارا کھیل اُس وقت سے شروع ہوا، جب مکسیم برنئیر نے سوشل میڈیا کا سہارہ لے کر صحافیوں کو باقاعدہ دھمکیاں دیں اور کارکنوں کو اِ س بات پر اکسایا کہ وہ ان صحافیوں کو سبق سکھائیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو سخت اور سنجیدہ سوالات پوچھنے سے ڈرانے دھمکانے کی کوششیں براہ راست آمرانہ طرز عمل ہے لیکن سی اے جے اس مشکل وقت میں صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔صحافت میں تنقید کی توقع کی جاتی ہے، ہراساں کرنے اور نفرت انگیز پیغامات نہیں ہیں۔ مستقبل قریب میں، سی اے جے ایک سوشل میڈیا مشاورت کا عمل بھی شروع کرے گا تاکہ تمام نیوز رومز کے لیے رہنما اصول مرتب کیے جا سکیں جس کا مقصد صحافیوں کی بہترین مدد اور حفاظت کرنا ہوگا۔صرف سی اے جے ہی نہیں دنیا بھر کی صحافتی تنظیمیں برنئیر کی دھمکیوں کا نشانہ بننے والے صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ جو کینیڈین صحافیوں کو اس بات کا یقین دلا رہی ہے کہ وہ اُن کے ساتھ ہیں۔
مکسیم برنئیر کون ہیں؟
جسٹن ٹروڈوکے اقدامات کے خلاف سخت گیر رویہ رکھتے رہے ہیں۔ جنہوں نے کورونا وبا کے دوران پابندیوں کی مخالفت کی۔ یہاں تک وہ ویکسین پاسپورٹ کے خلاف بھی سخت بیان بازی کرچکے ہیں۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کینیڈا میں سفید فاموں کے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ نسل پرستانہ بیانات کی وجہ سے وہ ہمیشہ تنقید کی زد میں آتے ہیں۔
Discussion about this post