یا اللہ تیرا شکر ہے۔ ہم ٹی وی نے اپنے سوشل میڈیا پر ”ہم کہاں کے سچے تھے“ کی آخری قسط کا اعلان کیا تو ایک ٹویٹر صارف نے اُس پوسٹ کو اس جملے کے ساتھ ٹویٹ کیا۔ میں نے جب وہ ٹویٹ دیکھی تو بے اختیار ہنس پڑی۔ ” ہم ٹی وی ” کی طرف سے ” ہم کہاں کے سچے تھے ” کو 2021 کا سب سے بڑا ڈرامہ کہا جا رہا تھا۔ کیوں نہ کہا جاتا۔ اس میں ملک کی سب سے نامور اداکارہ ماہرہ خان مرکزی کردار ادا کر رہی تھیں۔ ان کے ساتھ دیگر مرکزی کرداروں میں عثمان مختار اور کبریٰ خان تھے۔ ان دونوں کی اپنی فین فالونگ ہے۔ ڈرامہ مشہور پاپ فکشن رائٹر عمیرہ احمد کا لکھا ہوا تھا۔ وہ بھی ایک بڑا نام ہیں۔ ڈرامے کی ہدایات فاروق رند کی تھیں جبکہ نینا کاشف اس کی پروڈیوسر تھیں۔ اس کے باوجود ڈرامے میں سوائے ”ڈوبیا وے۔۔۔دل ڈوبیا وے“ اور مہرین (ماہرہ خان) کے آنسوؤں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ شروع کی چند اقساط کے بعد اُس ٹویٹر صارف کی طرح مجھ سمیت بہت سے لوگ ڈرامے سے تنگ آ چکے تھے۔ سائونڈ ٹریک اچھا تھا لیکن کتنا سنتے؟ ہمیں تو کہانی دیکھنی تھی وہ ہر قسط میں کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی۔ میں نے اس سے پہلے ماہرہ خان کا کوئی ڈرامہ نہیں دیکھا تھا۔ ” ہم کہاں کے سچے تھے” کی تشہیر شروع ہوئی تو سوچا اب دیکھ ہی لیتی ہوں۔ پہلی قسط آن ائیر ہوئی تو اپنی انسٹاگرام اسٹوریز پر اس پر اپنا تجزیہ بھی پیش کیا۔ اس تجزیے پر مجھے اپنے دوستوں کی طرف سے کافی اچھا ردِعمل ملا۔ اس کی خاطر مجھے ہر ہفتے ڈرامہ دیکھنا پڑا۔ عمیرہ احمد کا یہ ڈرامہ ان کے اسی نام کے ناول سے ماخوذ ہے۔

اس کی کہانی دو کزنز مہرین اور مشعل کے گرد گھومتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کا الٹ ہیں۔ مہرین ہر کام میں بہترین ہے۔ مشعل بس ایوریج۔ مہرین پوزیشن ہولڈر ہے۔ شاعری کرتی ہے۔ تقاریر کرتی ہے۔ لکھتی ہے۔ مصوری کرتی ہے۔ دوسری طرف مشعل پڑھائی بھی مجبوری میں کرتی ہے۔ مشعل مہرین کی کامیابیوں کی وجہ سے اس سے جلن محسوس کرتی ہے۔ وہ مہرین سے آگے نکلنے کے لیے ان کے کزن اسود سے قریب ہونے اور اسے مہرین سے متنفر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ اسود کے سامنے مہرین کی کامیابیوں کو اپنے نام سے پیش کرتی ہے اور ہر گفتگو میں مہرین کی کسی نہ کسی طرح بات لا کر اسے برا دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اسود اس کے بچھائے جال کو اس کی موت کے بعد بھی جان نہیں پاتا۔ مشعل کی اچانک موت کا وہ مہرین کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے اس سے اس کی موت کا بدلہ لینے کے لیے شادی کرتا ہے۔

آخر میں اس کے ہاتھ مہرین کی ڈائری لگتی ہے تب جا کر اسے حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ پھر وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہوتے ہوئے مہرین کے لیے دنیا کا سب سے اچھا مرد بن جاتا ہے۔ میں یہ ناول یونیورسٹی کے دنوں میں ہی پڑھ چکی تھی۔ مجھے وہ کچھ خاص متاثر نہیں کر سکا تھا۔ ڈرامہ شروع ہوا تو میں نے اسے بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ناول دوبارہ پڑھا۔ عمیرہ احمد کو شہرت اسی ناول سے ملی تھی۔ وہ اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ وہ اس ناول کو کتاب کی شکل میں لانے پر بھی ہچکچا رہی تھیں۔ ان کے مطابق یہ ناول کسی سنجیدہ ایشو پر نہیں تھا۔ تاہم، جب انہوں نے ٹی وی کے لیے لکھنا شروع کیا تو انہیں اس ناول کو بھی ڈرامائی تشکیل دینے کا کہا گیا۔ ان کے کچھ تحفظات تھے مگر انہیں کہا گیا کہ ناظرین ایسے موضوعات کو پسند کرتے ہیں ۔ انہیں پھر اس ناول کو ڈرامے کی شکل دینی ہی پڑی۔ اسی لیے انہوں نے کہانی بہت حد تک تبدیل کر دی۔ مثال کے طور پر ناول میں مہرین جیل جاتی ہی نہیں ہے جبکہ ڈرامے میں کئی اقساط اس نے جیل میں گزاری ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ناول اور ڈرامے میں بہت سے فرق ہیں۔ ناول ڈرامے کی نسبت کافی مضبوط ہے۔ اس میں مہرین اور اسود کے کردار بھی کافی جاندار ہیں۔ ڈرامے میں دونوں کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں۔ اسود مشعل کے لیے امریکہ سے انگوٹھی بھی لاتا ہے اور جب وہ شادی کا کہتی ہے تو اسے صاف کہہ دیتا ہے کہ وہ اسے صرف دوست اور کزن سمجھتا ہے۔

ناول میں مہرین ایک عام سی شکل و صورت کی لڑکی تھی۔ ڈرامے کے لیے ملک کی سب سے خوبصورت، سب سے مشہور اور سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ ماہرہ خان کا انتخاب کیا گیا۔ ناول میں اسود پڑھائی کے سلسلے میں لندن جاتا ہے اور پھر تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہیں نوکری کرنے لگتا ہے۔ ڈرامے میں اسود کو امریکہ پلٹ کزن دکھایا گیا ہے۔ ناول میں اسود اپنے باپ کی وفات کے بعد اپنی امی کو اپنے ساتھ امریکہ منتقل ہونے کا کہتا ہے۔ وہ انکار کر دیتی ہیں۔ پھر اسے ان کے لیے امریکہ چھوڑ کر پاکستان آنا پڑتا ہے۔ ڈرامے میں ایسے دکھایا گیا ہے جیسے اس کی امی کافی عرصے سے تنہا ہی رہتی آ رہی ہیں۔ اس پر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ وہ ڈرامے میں مہرین کی واحد ہمدرد رشتے دار دکھائی گئی ہیں۔ اگر وہ اکیلی رہ رہی تھیں تو انہوں نے مہرین کو اپنے بھائی اور بھابی کے گھر تشدد سہنے کیوں دیا۔ اسے اپنے پاس کیوں نہیں بلایا؟ ناول میں جب اسود کو مشعل کے مرنے کا علم ہوتا ہے تو وہ مہرین کو قصور وار سمجھتے ہوئے اس سے اپنی منگنی ختم کر لیتا ہے۔ مہرین بغیر دوسری بات کیے اپنی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی اس کی طرف بڑھا دیتی ہے۔ اسود بعد میں مہرین سے مشعل کی موت کا بدلہ لینے کے لیے اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ مہرین انکار کر دیتی ہے۔ وہ اپنی والدہ کو کہہ دیتا ہے کہ وہ اس سے ہی شادی کرے گا۔ وہ اسے منانے کے لیے جو ہو سکے کریں۔ پھر وہ ناول میں کہتا ہے کہ اسے نہیں معلوم مہرین کو کس نے اور کیسے منایا۔ بس ان کی شادی ہو گئی۔ ڈرامے میں مہرین کو اسود کے معاملے میں کنفیوژڈ دکھایا گیا ہے۔ وہ اسی کنفیوژن میں سفوان کے ساتھ وہ کرتی ہے جو اسود اس سے پہلے مشعل کے ساتھ کر چکا ہوتا ہے یعنی دھوکہ۔ ناول میں اسود شادی کی رات مہرین کو بتاتا ہے کہ وہ اب محدود زندگی گزارے گی۔ نہ کسی سے ملے گی، نہ بات کرے گی، نہ پیسہ استعمال کرے گی، کھانا بھی صرف اتنا کھائے گی جتنی اسے ضرورت ہے۔ وہ نوکری کے سلسلے میں کراچی منتقل ہو جاتا ہے۔ مہرین کو بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ اس طرح مہرین کا سب سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ وہ اکیلے گھر میں ذہنی امراض کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ ایک ہی کام بار بار کرتی رہتی ہے۔ ڈرامے میں مہرین کو مشعل کے قتل کے الزام میں جیل بھیجا جاتا ہے۔ وہ اس کے بعد سے ٹراما میں رہتی ہے۔ اسے مشعل کا بھوت دکھائی دیتا ہے۔ وہ اسے خود کشی پر اکساتا ہے۔ رہی سہی کسر اسود کا برا رویہ پوری کر دیتا ہے۔

مہرین بالاخر اسپتال پہنچ جاتی ہے۔ ناول میں اسود مہرین کو امتحان بھی نہیں دینے دیتا۔ اس کی امی کی وفات ہوتی ہے تو وہ اسے جنازے پر جانے سے روک دیتا ہے۔ اسود کی امی اس کے مہرین سے برے رویے کی وجہ سے ناراض ہو جاتی ہیں۔ ان کی وفات کے وقت وہ ملک سے باہر ہوتا ہے۔ کوشش کے باوجود اسے فلائٹ نہیں مل پاتی۔ اسے لگتا ہے جیسے قدرت نے اس سے بدلہ لیا ہو۔ ڈرامے میں یہ دونوں اموات نہیں ہوتیں۔ نہ ہی اسود مہرین پر ایسی پابندیاں لگاتا ہے۔ مہرین کے دماغی مسائل بھی ناول کی نسبت مختلف دکھائے گئے ہیں۔ ایک قسط میں تو ناظرین کو خود کشی کے مختلف طریقے بھی بتائے گئے۔ جو لوگ گھر سے باہر نہ جا سکتے ہوں انہیں گھر کے اندر ہی خود کشی کس طرح کی جا سکتی ہے، بتایا گیا۔ ڈرامے کے آخر میں اسود کو پشیمان دکھا کر دنیا کا بہترین مرد بنا دیا جاتا ہے۔ وہ مہرین سے معافی مانگتا ہے۔ وہ اسے معاف کر دیتی ہے۔ اسود اسے اپنی پڑھائی پوری کرنے کا کہتا ہے۔ یوں اسے ” ہم کہاں کے سچے تھے ” کی پوری ٹیم دنیا کا بہترین مرد بنا دیتی ہے۔

دوسری طرف ہر قسط میں مہرین کو روتا دکھا کرروایتی اور بہترین خاتون ثابت کرنے کی بھی پوری کوشش کی گئی ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے ناول میں روایتی ڈرامے والے عناصر کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس کے پلاٹ کو کمزور بنایا گیا۔ اگر ڈرامے کے اسکرپٹ کو ناول میں بیان کی گئی کہانی سے قریب ترین رکھا جاتا تو شائد آج یہ ڈرامہ بہتر الفاظ میں یاد کیا جا رہا ہوتا۔ ڈرامہ بنانے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ لوگ اب سمجھدار ہو چکے ہیں۔ آپ انہیں ہر بری چیز لمبی چوڑی باتیں بنا کر بیچ نہیں سکتے۔ چاہے وہ چیز بچپن کا ٹراما ہو یا والدین کی طرف سے بچوں کے مابین موازنے کی کوششیں۔

Discussion about this post