اگر یہ کہا جائے کہ 80 کی دہائی میں جس ڈرامے نے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنایا تو وہ انور مقصود کا لکھا ہوا ’ آنگن ٹیڑھا ‘ تو اس میں کوئی قیاس آرائی نہیں ہوگی۔ ہر کردار انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ تھا اور انہی میں سلطانہ کے کردار میں دردانہ بٹ کا چلبلا سا شرمیلا انداز تو جیسے ’ آنگن ٹیڑھا ‘ کی جان تھا۔ بالخصوص جب بشریٰ انصاری سے ان کی نوک جھوک ہوتی تو ہر چہرہ کھل اٹھتا ۔ مخصوص پنجابی لب و لہجے میں اردو شاعری کا شوق ، دردانہ بٹ کے پرستاروں کی تعداد بڑھاتا چلا گیا اور پھر چند ہی برس بعد جب ’ تنہائیاں ‘ شروع ہوا تو ا س میں ملازمہ بی بی ‘ کے کردار میں وہ ماں کے شفقت اور خلوص کی جھلک دکھا گئیں۔
دردانہ بٹ ٹام بوائے سوچ کی حامل
دردانہ بٹ کا کہنا تھا کہ وہ صرف 16یا 17سال کی تھیں ، جب انہوں نے موٹر سائیکل چلانا سیکھا۔ لاہور میں پیدائش ہونے کی وجہ سے وہاں کی سڑکوں پر فراٹے بھرتی موٹر سائیکل بھگاتیں تو راہ گیر رک کر ضرو ر دیکھتے کہ یہ کون لڑکی ہے جو موٹر سائیکل کو اڑاتی چلی جارہی ہے۔ والد ڈائریکٹر آف ایجوکیشن تھے، جب کہ والدہ ٹیچر، جبھی ابتدا سے دردانہ بٹ پر واضح کردیا تھا کہ چاہے جتنی موج مستی کرلو ، تعلیم کا سلسلہ کبھی نہیں چھوڑنا۔ یہی وجہ ہے کہ دردانہ بٹ نے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھا۔ دلچسپ بات یہ کہ دردانہ بٹ نے صرف موٹر سائیکل کو ہی ہوا سے باتیں نہیں کرائیں بلکہ طیارہ اڑانے کی باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی اور کئی سال ہوا بازی کا شوق بھی پورا کیا ۔ خواہش تو ان کی پولیس کے محکمے میں جانے کی تھی لیکن والد کے اصرار پر ڈاکٹر ایجوکیشن ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی۔
اداکاری کا شوق
دردانہ بٹ کہتی تھیں کہ انہیں اداکاری کا ابتدا سے ہی شوق تھا۔ والد کی خواہش پوری کرنے کے بعد انہوں نے تھیٹرپر اداکاری کیلئے لاہور مرکز میں چکر لگائے اور یوں سال 1966 میں صرف 18 یا 19 برس کی عمر میں انہیں ٹی وی پر کام مل گیا۔ چونکہ شروع سے ہی فربہ مائل تھیں، اسی لیے پروڈیوسر نے انہیں مزاحیہ کرداروں کے لیے آئیڈل قرار دیا۔ ’ الف ن ‘ میں کمال احمد رضوی اور رفیق خاور کے ساتھ دو تین کھیلوں میں نظر آئیں اور پھر کراچی آکر نئے سرے سے فنی سفرکا آغاز کیا۔
جوانی میں بیوگی کا داغ
دردانہ بٹ کی انتہائی کم عمری میں 1970میں اپنے کزن سے شادی ہوئی لیکن پھر اختلافات جنم لیے تو دونوں میں علیحدگی ہوگئی ۔ بدقسمتی سے ان کے شوہر اسی عرصے کے دوران چل بسے۔ جس کے بعد دردانہ بٹ نے ساری عمر شادی نہیں کی بلکہ خود کو اداکاری اور فروغ تعلیم کے لیے ؤقف کردیا۔
روحانیت سے لگاؤ
دردانہ بٹ کو غیر معمولی حد تک روحانیت سے لگاؤ رہا۔ انہوں نے باقاعدہ سے ایک پیر صاحب کی مرشدگی حاصل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ حد درجہ بے چین اور اضطراب کا شکار ہوتیں تو روحانیت کی جانب رجوع کرتیں۔ روحانی ایمان افروز محفلوں میں شرکت کرکے ان کی زندگی پرسکون رہتی۔
دردانہ بٹ کے مشہور ڈرامے
دردانہ بٹ نے آنگن ٹیڑھا اور تنہائیاں ہی نہیں ففٹی ففٹی ، عید ٹرین ، نوکر کے آگے چاکر ، رسوائی جیسے مشہور ڈراموں کے ساتھ فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان میں ہجرت ، عشق پوزیٹو ، بلو ماہی ، پرے ہٹ لو ، دل دیاں گلیاں اور ڈرائی لیوز نمایاں ہیں ۔ آنگن ٹیڑھا پر انہیں پی ٹی وی کا معاون اداکارہ کا ایوارڈ بھی ملا ۔
تعلیم سے عشق
اداکاری کی طرح دردانہ بٹ کو تدریسی عمل سے غیر معمولی لگاؤ تھا، جبھی تو وہ کراچی کے مقامی اسکول میں بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں مصروف عمل بھی رہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی سرپرستی میں مستقبل کے بہترین معمار تیار کیے جائیں ۔
دردانہ بٹ کی بیماری
دردانہ بٹ کئی برسوں سے کینسر سے جنگ لڑ رہی تھیں اور ایک ہفتے پہلے ہی انہیں اسپتال داخل کرایا گیا تھا، جہاں انہیں وینٹی لیٹرز پر منتقل کردیا اور آج بروز جمعرات 12 اگست کو ان کی سانسوں کی لڑیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اکھڑ گئیں۔
Discussion about this post