گزشتہ چند برسوں کے دوران دنیا سمٹ کر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے گرد گھوم رہی ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ وہیں مختلف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال میں جیسے سب کو قریب سے قریب تر کردیا ہے۔ اب کوئی بھی بات کرنی ہے، کس پر اظہار خیال کرنا ہو تو لاتعداد ایسی ویب سائٹس ہیں، جہاں اس کام کو اور زیادہ سہل بنادیا گیا ہے۔جہاں دنیا میں انفارمیشن سیکٹر کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے، وہیں اس بات سے انکار نہیں کہ بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا حب تصور کیا جاتا ہے۔ بالخصوص بنگلور جس کے متعلق کہا جاتا ہے اس شہر نے آئی ٹی سیکٹر میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ ایک ایسا شہر جس کا ہر دوسرا شخص انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کا یہ عالم ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سماجی رابطوں کے باقاعدہ ذیلی ادارے کام کررہے ہیں، جو ان سماجی رابطوں کی اپلی کیشنز کو حکومتی طے شدہ قوانین کے تحت چلاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں یہ بھارتی آئی ٹی سیکٹر میں ملک میں کام کررہے ہیں، وہیں دنیا بھر کے مختلف آئی ٹی ادار وں کا جائزہ لیا جائے تو اُن کے اہم عہدوں پر بھارتی نژاد ہی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔
کون کون بھارتی کس کس عہدے پر؟
سماجی رابطے کی سب سے معتبر ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ کے انتظامی اور ٹیکنالوجی امور سنبھالنے والے پراگ اگروال کا تعلق بھارت سے ہے پراگ اگروال ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ’ٹوئٹر‘ سے منسلک ہیں۔ انہوں نے 2011 کو ٹوئٹر جوائن کیا تھا۔ 2011 میں ٹوئٹر کا حصہ بننے کے بعد پیراگ پھر ریونیو اور کنزیومر انجینئرنگ میں اپنے کام کی وجہ سے ٹویٹر کے پہلے ممتاز انجینئر بن گئے، 2018 میں ترقی پاتے ہوئے ٹوئٹر کے سی ٹی او بنے پھر سی ٹی او کے طور پر پیراگ کمپنی کی تکنیکی حکمت عملی کے لیے ذمہ دار رہے۔ 2019 میں ٹوئٹر کے سی ای او جیک ڈورسی نے پیراگ کو پروجیکٹ بیلواسکائی کا سربراہ بنایا۔
صارفین کی زندگی کا اہم حصہ تصور کیا جانے والے ’گوگل‘ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سندر پیچائی بھی بھارتی نژاد ہیں۔ بات کی جائے مائیکرو سوفٹ کی تو یہاں بھی سی ای او بھارتی نژاد ستیہ نڈیلا ہیں۔ امریکی ملٹی نیشنل ٹیکنالوجی کارپوریشن کا سب سے بڑا اور وسیع ادارہ آئی بی ایم کے سی ای او اروند کرشنا بھی بھارت سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری جانب ایڈوب کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شانتانو نرائن بھی بھارتی نژادا مریکی ہیں۔ راگاراجن رگھورم کلاؤڈ کمپویٹنگ کمپنی وی ایم وائر کے ایگزیکٹو وائس ہیں۔
یہ تمام شخصیات وہ ہیں، جنہوں نے ابتدائی تعلیم کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں مختلف مہارت حاصل کی اور پھر اس ہنر میں اور زیادہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک کا سفر کیا۔ ان اہم ترین عہدوں پر بھارتی نژاد امریکیوں کا ذمے داری نبھانا، اس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ بھارت عالمی افق پر انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کس قدر اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
پاکستانی عام طور پر بھارت سے مقابلہ اگر کرتے ہیں تو کرکٹ کی کامیابی کو ہی بہت بڑا تصور کرتے ہیں لیکن پاکستانی آئی ٹی ایکسپرٹ عمر سیف نے پراگ اگروال کی تعیناتی پر پاکستانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے یہی لکھا کہ اصل مقابلہ تو یہاں ہونا چاہیے۔ یقینی طور پر یہ بات خاصی غور طلب ہے۔ گو کہ اگست2015میں نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا جائزہ لیں تو اُس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں آئی ٹی سیکٹر میں غیر معمولی ترقی ہوئی۔ سوفٹ وئیر کوڈر اور اپلی کیشن ڈیزائنرز کے لیے نئی راہیں ہموار ہوئیں۔ جبکہ اُس وقت تک پاکستان میں آئی ٹی کی لگ بھگ 15ہزاررجسٹرڈ کمپنیز اور ہر سال 10ہزار طالب علم آئی ٹی کے شعبے سے فارغ التحصیل ہوتے۔ موجودہ حکومت کے دور میں آئی ٹی سیکٹر کی آمدن میں 35فی صد اضافے کا بھی دعویٰ کیا جاتا ہے۔ حکومت تو یہ بھی کہتی ہے کہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں آئی ٹی برآمدات کا حجم 63.50کروڑ ڈالر تک رہا۔ جبکہ بھارت سے اس کا موازنہ کیا جائے تو اس کا حجم 200ارب ڈالر تک رہا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں، بھارت میں 90کے عشرے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو غیر معمولی اہمیت دی گئی جبکہ پاکستان میں اس شعبے پر درست انداز میں کام 2000میں شروع ہوا۔ آئی ٹی ماہرین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کے برعکس بھارت میں کمپیوٹر سائنس اور ریاضی کے مضامین میں نوجوا ن خاص طور پر دلچسپی لیتے ہیں۔ یہی خاصیت انہیں ملک سے باہر اچھی ملازمت کے حصول کو آسان بناتی ہے۔ پاکستان میں بیشتر نوجوان جو ’اسٹار ٹ اپ بزنس‘ کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں، اُنہیں حکومتی سطح پر کوئی سپورٹ نہیں ملتی تھی لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں ہی رواں سال، پچھلے برس کے مقابلے میں 80 فیصد آئی ٹی کی در آمدات میں اضافہ ہوا ۔جس میں سب سے کلیدی کردار فری لانسگ کا بھی ہے۔ حکومت یہ بھی ارادہ رکھتی ہے کہ اسپیشل انفارمیشن ٹیکنالوجی زونز بنائے جائیں تاکہ اور فری لانسنگ کو سپورٹ کیا جائے جو ملکی زر مبادلہ بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔
پھر پاکستان آئی ٹی کی دنیا میں آگے کیوں نہیں؟
اب سوال یہ ہے کہ حکومت تو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ملک میں آئی ٹی سے متعلقہ بہت امید افزا خبریں تو ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں پھر پاکستان کے پروفیشنلز بھارت کی طرح بڑی بڑی ٹیک فرمز کی سربراہی کرتے؟ تو غالباً جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ پاکستان کی اکثر آئی ٹی یونیورسٹیز جہاں سے طالب علم فارغ تحصیل ہوتے ہیں وہاں ان یونیورسٹیز میں ایک پہلے سے طے شدہ دستور کے تحت سلیبس پڑھایا جاتا ہے جہاں ا یک طالب علم خود سے کوئی اپنی تخلیقی سوچ کو نافذ نہیں کرسکتا۔ دوسرا یہ کہ جو اکثر آئی ٹی کمپنیز ہیں وہاں ایک طے شدہ ماڈلز پر ہی کام ہوتا رہتا ہے گوکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو ان سب سے استثنا حاصل ہے لیکن ایسی آرٹیفیشیل کمپنیز پاکستان میں بہت کم ہیں۔ دوسرا وہ پروفیشنلز جو پاکستان میں کام کرنا چاہتے ہیں مگر وہ یہاں کے سیاسی اور بیوریوکریٹک ریڈٹیپ سے بد ظن ہو کر اور دلبرداشتہ ہوکر ملک سے باہر جانے کو ہی ساز گر سمجھتے ہیں۔ تانیہ ایڈرس جو پاکستان ڈیجیٹل پاکستان کی سربراہی اپنی ایک بھاری بھر کم گوگل کی نوکری اور تن خواہ چھوڑ کر پاکستان آئی تھیں ان کو بھی فقط 7 ماہ کے اندر اپنے اس عہدے سے استعفٰی دینا پڑا اور وجوہات بنائی گئیں دہری شہریت حامل شخصیت کیسے پاکستان کے آئی ٹی نظام کی باگ ڈور سنبھال سکتی ہے۔
Discussion about this post