کراچی میں زمین خریدنا اور پھر اُس پرگھر بنانا پہلے ہی ایک ایسا مشکل اور دشوار ٹاسک سمجھا جاتا ہے، جو تن خواہ دار طبقے کے لیے کسی خواب کو حقیقت کا روپ ہوتے دیکھنے سے کم نہیں لیکن اب لگتا ہے یہ خواب دیکھنے سے بھی وہ محروم ہوجائیں گے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے نئے ضوابط جب سے سامنے آئے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے زمین کا حصول کم آمدنی والے طبقے کے لیے خوف ناک حقیقت بن گیا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق اُس نے ملک بھر سے 40بڑے شہروں کا انتخاب کیا ہے، جہاں کی پراپرٹیز کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک اسکوائر فٹ یارڈ کی قیمت 3لاکھ 50ہزار روپے کردی گئی ہے جبکہ کراچی کے مختلف علاقوں میں 3کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جس میں ائیر فورس سوسائٹی، پی سی ایچ ایس اور ڈی ایچ اے ملیرسوسائٹی کو کیٹگری اے ون میں رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب گلستان جوہر بلاک 17، سول لا ئنز ، کراچی ایڈمن اور گارڈن ایسٹ کو قدرے زا ئد کے علاقوں میں شامل کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ لیاقت آباد، شارع فیصل، فرئیر روڈ، محمود آباد، نارتھ ناظم آباد اور جوہر کے کچھ علاقوں کو ون کیٹگری میں رکھا گیا ہے ۔
ایف بی آر نے پوش علاقوں میں مطلب اے ون کیٹگری کے علاقوں کی قیمت 81000 ہزار روپے فی اسکوائر یارڈ مقرر کی ہے۔ جبکہ ون کیٹگری والی پراپرٹیز والے علاقوں کی رقم 56000 روپے فی اسکوائر یارڈ مقرر کی گئی ہے۔ ایف بی آر نے منگل کو ہی ایف بی آر اور اس میں کام کرنے والے رئیل اسٹیٹ ایجنٹس پر لاز م کردیا تھا کہ وہ ایف بی آر میں اپنے آپ کو رجسٹر کرائیں تاکہ نون ڈاکو منٹڈ اکانومی کا تدارک کیا جاسکے۔ فیٹف کے بہت سارے مطالبات میں پاکستانی حکومت سے یہ بھی تقاضہ کیا گیا تھا کہ رئیل اسٹیٹ بزنس کو حکومت کی بھرپور نگرانی میں لایا جائے تاکہ منی لانڈرنگ جیسے جرائم کا تدارک کیا جاسکے۔ کیونکہ جب رقم کسی غیر گردشی امور میں استعمال کی جاتی ہے تو پھر ملزمان بآسانی مالی ضوابط کی خلاف ورزی کرکے قانون کی نظر سے بچ جاتے ہیں۔
کیا پراپرٹیز کی قیمتوں میں اضافے سے ٹیکس بڑھے گا؟
ایف بی آر کا پراپرٹی کی قدر میں اضافے کو رئیل اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشن نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جن کا کہنا ہے کہ ایف بی آر نے 200سے 400فی صد تک اضافہ کردیا ہے کہ انہیں کسی صورت قبول نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کون کیوں مہنگی پراپرٹیز خریدے گا اور جب اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ کردیا ہے تاکہ قومی طلب میں کمی کی جائے اور پراپرٹیز کے لیے پیسے عمومی طور پر لوگ بینکوں سے ادھار لیکر ادا کرتے ہیں، بہت سارے حوالوں سے وہی ایف بی آر کا ٹیکس ریوینو میں اضافے کی منصوبہ سازی کو ماند کردیتا ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ کیونکہ فیڈرل بور ڈ آف ریوینیو دوسرے ذرائع سے ٹیکس نیٹ نہیں بڑھا پاتا تو اس نے اسی میں سہولت سمجھی کہ ملک بھر میں رہائشی اور کمرشل فلیٹس جو کہ ’غیر گردشی پراپرٹیز‘ سمجھی جاتی ہے تو ان کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جائے۔
Discussion about this post